زندگی سے کھلواڑ کر بچ نکلنے کا فارمولہ بنا الیکٹورل بانڈ، کئی فارما کمپنیوں نے جانچ کے دوران کی خریداری

ہیٹیرو لیبس، ہیٹیرو ہیلتھ کیئر، ٹورینٹ فارما، جائڈس ہیلتھ کیئر، گلین مارک، سپلا جیسی کمپنیوں نے اس وقت کروڑوں روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے جب ان کے خلاف گھٹیا دوائیں بنانے کی جانچ چل رہی تھی۔

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، سوشل میڈیا</p></div>

علامتی تصویر، سوشل میڈیا

user

رشمی سہگل

ہندوستان کی کئی مشہور اور بڑی فارما کمپنیاں الیکٹورل بانڈ خریدنے میں پیش پیش رہی ہیں۔ انھوں نے تقریباً 1000 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے اور ظاہر سی بات ہے کہ ان کا بڑا حصہ بی جے پی کی جھولی میں گیا۔ ان میں سے سات کمپنیاں ایسی تھیں جنھوں نے اس وقت الیکٹورل بانڈ خریدے جب ان کے خلاف مبینہ طور پر گھٹیا دوا بنانے کی جانچ چل رہی تھی۔

ہیٹیرو لیبس اور ہیٹیرو ہیلتھ کیئر ایسی ہی کمپنیاں ہیں جنھوں نے 2022 اور 2023 کے درمیان 60 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔ گجرات واقع ٹورینٹ فارما نے 2019 اور جنوری 2024 کے درمیان 77.5 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔ ایک دیگر گجراتی کمپنی جائڈس ہیلتھ کیئر نے 2022 اور 2023 کے درمیان 29 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے، جبکہ گلین مارک نے 2022 میں 9.75 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔ اس طرح سِپلا نے نومبر 2022 میں 25.2 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ سبھی کمپنیاں گھٹیا دوائیں بنانے کے معاملے میں جانچ کا سامنا کر رہی ہیں۔


مثلاً ہیٹیرو لیبس کو کووڈ 19 کے علاج میں استعمال کی جانے والی دوا ریمڈیسیور سے متعلق تین نوٹس ملے۔ ٹورینٹ فارما کو اینٹی پلیٹ لیٹس دوا کے لیے نوٹس ملا جسے مہاراشٹر فوڈ و اوشدھی ایڈمنسٹریشن کے ذریعہ گھٹیا پایا گیا تھا۔ جائڈس ہیلتھ کیئر کے خلاف ریمیڈیسیور کی مینوفیکچرنگ میں گڑبڑی کا معاملہ چل رہا تھا۔ سِپلا کے خلاف بھی گھٹیا ریمڈیسیور دوا بنانے کا معاملہ درج کیا گیا جس کی وہ اب تک مینوفیکچرنگ کر رہی ہے۔

سماجی کارکن صنعت کار ایس شرینواسن، جنھوں نے دواؤں کے 329 قابل اعتراض کمپوزیشن پر پابندی لگانے میں اہم کردار نبھایا، کا ماننا ہے کہ یہ ایک طرح سے جرم کو جائز بنانے جیسا ہے۔ یہ ایک گھٹیا دوا کے بدلے فائدہ لینے جیسا ہے، لیکن میں کسی پر انگلی اٹھا کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ انھوں نے حکومت کو رشوت دی۔ انتخاب کے لیے پیسہ دیا گیا، کمپنی جمہوری طریقہ کار کی حمایت کر رہی ہے اور یہ پوری طرح سے جائز سرگرمی ہے۔


ای این ٹی ماہر اور کفایتی ہیلتھ دیکھ بھال کے لیے مہم چلانے والے غیر سرکاری اداروں کے قومی گروپ آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹورک (اے آئی ڈی اے این) کے رکن ڈاکٹر گوپال دباڈے کا ماننا ہے کہ دوساز اس طرح کی حالت سے بچ سکتے ہیں کیونکہ ریگولیشن نظام بہت کمزور ہے اور اس میں سیاسی مداخلت ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر دباڈے کہتے ہیں کہ ’’میڈیسن ریگولیشن کی حالت خستہ ہے۔ اگر کرناٹک کے ڈرگس انسپکٹر کو اپنی ریاست میں فروخت کی جا رہی کوئی دوا گھٹیا لگتی ہے تو وہ ڈرگس ریگولیٹری اتھارٹی سے شکایت کر سکتا ہے، لیکن آگے کی کارروائی اس ریاستی حکومت کو کرنی ہوگی جہاں دوا کی مینوفیکچرنگ کی گئی۔ قانون کے کمزور عمل درآمد کے سبب ریاست کے افسران کے لیے سرکاری وکیل اور ڈرگس انسپکٹر کو رشوت دے کر پورے معاملے کو رفع دفع کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔


ڈاکٹر دباڈے کے مطابق پروڈیوسر کے خلاف کارروائی کرنے کا پورا طریقہ کار بہت محنت طلب ہے، کیونکہ ثبوت کو عدالت کے سامنے پیش کرنا ہوگا ہے۔ ڈرگس انسپکٹر ریگولیٹری ڈھانچہ کو عمل درآمد کرنے کے لیے ذمہ دار فوجی ہیں اور وہ بدعنوانی کو فروغ دیتے ہیں۔ دباڈے کا ماننا ہے کہ ’’ہمیں دواؤں کی مینوفیکچرنگ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سبھی ریاستوں میں قوانین کا ایک یکساں پیمانہ بنانے کی ضرورت ہے اور ایسے ہی صارفین کے مفادات کا تحفظ ہو سکتا ہے۔ کئی فارما کمپنیاں لیڈروں کے رشتہ داروں کے ذریعہ چلائی جا رہی ہیں اور اس لیے انھیں اعلیٰ سطح پر تحفظ حاصل ہو جاتا ہے۔‘‘

اے آئی ڈی اے این کے شریک کنوینر شرینواسن بتاتے ہیں کہ دواؤں کے پروڈکشن میں مزید خامیاں ہوتی ہیں۔ جب دواؤں کی مناسب ٹیسٹنگ نہیں کی جاتی اور نہ ہی اس کا مناسب ریکارڈ رکھا جاتا ہے تو یہ بھی خامی ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی دوا ناکام ہو جاتی ہے اور ڈرگس انسپکٹر اسے ثابت کر سکتا ہے تو دوا کا فارمولہ پھر سے تیار کرنا ہوتا ہے جو بہت مہنگا عمل ہے۔‘‘


شرینواسن بتاتے ہیں کہ ’’ایک بار خوردہ دکانوں میں دوا پہنچا دی گئی تو ہندوستان میں اس کی واپسی سے متعلق کوئی پالیسی نہیں ہے۔ دوا پروڈیوسرز کا کہنا ہے کہ ایک بار جب کوئی دوا کمپنی سے نکل جاتی ہے تو ان کا دوا پر کوئی کنٹرول نہیں رہ جاتا کہ اسے کیسے رکھا جا رہا ہے اور کچھ خاص دواؤں کو رکھنے کے معاملے میں جس طرح کا احتیاط کرنا ضروری ہوتا ہے، ان کا خیال رکھا بھی جا رہا ہے یا نہیں۔‘‘

’ہیلتھ انیشیٹو اینڈ ایکویٹی‘ کی ڈائریکٹر اور ’پیپلز ہیلتھ موومنٹ‘ کی بانی رکن ڈاکٹر میرا شیوا کا ماننا ہے کہ الیکٹورل بانڈ کی خریداری ایک گہری بیماری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ شیوا نے کہا ’’جن کمپنیوں پر چھاپے مارے گئے، وہ سبھی ہندوستانی کمپنیاں تھیں۔ حکومت نے ان بڑی کثیر ملکی کمپنیوں کو نہیں چھوا جو اربوں ڈالر کے ہندوستانی بازار میں اپنی دوائیں فروخت کر رہی ہیں۔‘‘


شیوا کہتی ہیں ’’بیشتر کثیر ملکی کمپنیاں اور کئی بڑے ہندوستانی دوا ساز قرض لائسنس عمل (قرض لائسنس وہ عمل ہے جس کے تحت دوا ریگولیٹری اتھارٹی ایک دواساز کمپنی کو کسی اور لائسنس شدہ کمپنی سے ڈرگس اور کاسمیٹکس کی مینوفیکچرنگ کا کام کرانے کی اجازت دیتی ہے) کے تھت ہماچل پردیش کے بدّی یا اتراکھنڈ کے کوٹدوار جیسے مقامات میں چھوٹی کمپنیوں سے اپنی دواؤں کی مینوفیکچرنگ کروا رہی ہیں۔ کثیر ملکی کمپنیاں حکومت پر جنرک دواؤں کے پروڈکشن پر روک لگانے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہیں، کیونکہ اس سے ان کا منافع بڑھ جائے گا۔ بھلے ہی بڑی فارما کمپنیوں نے الیکٹورل بانڈ نہیں خریدے ہوں، اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ وہ بھی دیگر طریقوں سے انتخابی عمل میں تعاون کر رہی ہوں گی۔‘‘

بانڈ اور فارما کمپنیوں کا رشتہ ویسا ہی ہے جیسے پہیے کے اندر پہیہ۔ اربندو فارما کے ڈائریکٹرس میں سے ایک پی سارتھ ریڈی نے جنوری 2022 میں تین کروڑ روپے اور پھر جولائی 2022 میں 1.5 کروڑ روپے کے الیکٹورل بانڈ خریدے۔ حالانکہ دہلی کے شراب لائسنس عمل میں رشوت کے معاملے میں ریڈی کی گرفتاری کے بعد 15 نومبر 2022 کو انھوں نے بی جے پی کے لیے 5 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے۔ ایک سال بعد وہ سرکاری گواہ بن گیا اور جون 2023 میں انھوں نے بی جے پی کو 25 کروڑ روپے دیے۔ مجموعی طور پر اربندو نے بی جے پی کو 34.5 کروڑ روپے، جون 2023 میں ٹی ڈی پی کو 2.5 کروڑ روپے اور اپریل 2022 میں بی آر ایس کو 15 کروڑ روپے دیے۔


دوا صنعت کو اسٹاف کی کمی اور فارما لابی کے دباؤ میں مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کی وجہ سے سنٹرل دوا ریگولیٹری مینوفیکچرر پر مقدمہ چلانے سے کترا رہے ہیں۔ لیکن اس کی وجہ سے ہندوستان میں تیار گھٹیا دواو۷ں سے 200 سے زائد اموات ہوئی ہیں۔ ان میں سے کئی بچے ایسے تھے جو گھٹیا کف سیرپ پینے سے موت کی نیند سو گئے۔ ہندوستان کو جنرک اور معیاری دواؤں دونوں کے سرکردہ مینوفیکچررس کی شکل میں ابھرنے کے لیے اپنے ریگولیٹری سسٹم کو مضبوط کرنا ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔