ہائے رے بی جے پی کے پیٹ کا مروڑ... سہیل انجم
کانگریس ایک تاریخی پارٹی ہے جس کا جنگ آزادی میں غیر معمولی کردار رہا ہے۔ جبکہ بی جے پی کا سرپرست آر ایس ایس انگریزوں کی خوشامد کرتا رہا اور اس کے لیڈران انگریزوں سے معافی مانگتے رہے۔
کانگریس پارٹی میں صدارتی انتخاب کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے لیکن بی جے پی کے پیٹ کا مروڑ ختم نہیں ہو رہا۔ دراصل وہ کانگریس دشمنی بلکہ نہرو گاندھی خاندان سے ابدی دشمنی کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہے۔ وہ ہمیشہ کانگریس پر خاندانی راج کا الزام عاید کرتی رہتی ہے۔ حالانکہ یہ الزام سراسر مبالغہ آمیز ہے۔ اپنے قیام سے لے کر اب تک اس کے ایسے متعدد صدور ہوئے ہیں جن کا نہرو گاندھی خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی سے لے کر وزیر داخلہ امت شاہ اور سمبت پاترا جیسے چھٹ بھیا اور بڑ بولے لیڈروں تک کے حواس پر یہ خاندان اس طرح سوار ہے کہ جب تک وہ اس کی شان میں دو چار مغلظات نہ سنا دیں ان کا کھانا ہضم نہیں ہوتا۔
یہ بات بار بار کہی جاتی رہی ہے کہ نریندر مودی نے ہندوستان کو کانگریس مکت یعنی کانگریس سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک انتہائی غیر جمہوری سوچ ہے جس کو وزیر اعظم آگے بڑھاتے رہے ہیں۔ جمہوریت میں حزب اختلاف کی اتنی ہی اہمیت اور ضرورت ہے جتنی کہ حزب اقتدار یا حکمراں طبقے کی۔ اگر کسی ملک سے اپوزیشن کا خاتمہ ہو جائے تو وہ ایک غیر جمہوری ملک بن جائے گا اور اس کے حکمراں ڈکٹیٹر ہو جائیں گے۔ جبکہ آزاد ہند کے معماروں نے اسے ایک سیکولر جمہوری ملک قرار دیا ہے۔ لیکن اسے کیا کیا جائے کہ بی جے پی کی سرپرستی جو نظریاتی گروہ کرتا ہے اس کے نزدیک جمہوریت ایک گالی ہے۔
کانگریس ایک تاریخی پارٹی ہے جس کا جنگ آزادی میں غیر معمولی کردار رہا ہے۔ جبکہ بی جے پی کا سرپرست آر ایس ایس انگریزوں کی خوشامد کرتا رہا اور اس کے لیڈران انگریزوں سے معافی مانگتے رہے۔ لہٰذا وزیر اعظم مودی اس لیے ہندوستان کو کانگریس سے پاک کرنے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں تاکہ نہ کانگریس رہے گی نہ اس کی خدمات کا ذکر کرکے بی جے پی کو نشانہ بنایا جائے گا۔ یعنی نہ رہے بانس نہ بجے گی بانسری۔ لیکن وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کے دوسرے رہنماوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کانگریس کی خدمات کو ہندوستان کی تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جا سکتا۔
بی جے پی لیڈران کانگریس پر خاندانی راج کا الزام تو لگاتے ہیں لیکن کانگریس ہی ملک کی ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے جس میں بیلٹ پیپر سے پارٹی صدر کا انتخاب ہوتا ہے۔ باقی جتنی بھی پارٹیاں ہیں ان میں صدر کا انتخاب اس طرح نہیں ہوتا بلکہ جس کو پارٹی کے بااثر لیڈران چن لیں وہی صدر بن جاتا ہے۔ خود بی جے پی میں کبھی بھی بیلٹ پیپر سے صدر کا انتخاب نہیں ہوا۔ وہاں تو ناگپور سے صدر تھوپے جاتے ہیں۔ یعنی آر ایس ایس نے جس کی پشت پر ہاتھ رکھ دیا وہ صدر بن گیا۔ کیا یہ کوئی جمہوری عمل ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ اس پارٹی کو دوسری پارٹیوں میں اندرونی جمہوریت کے سلسلے میں بات کرنے کا کیا اخلاقی جواز ہے جس میں خود اندرونی جمہوریت نام کی کوئی شے نہ ہو۔
جہاں تک اس الزام کی بات ہے تو دراصل بی جے پی یہ سمجھتی ہے کہ نہرو گاندھی خاندان کانگریس پارٹی کی طاقت ہے۔ پارٹی میں آزادی سے پہلے بھی اور آزادی کے بعد بھی اس خاندان کی زبردست خدمات ہیں۔ اس لیے اگر صدارت کے لیے پارٹی کارکن اس خاندان کی طرف دیکھتے ہیں تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ جبکہ بی جے پی میں ایسا کوئی خاندان ہے ہی نہیں جس کی ملک کے لیے قابل ذکر خدمات ہوں۔ لہٰذا وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور دیگر بی جے پی لیڈروں کے الزام اور پروپیگنڈے کی ہوا نکالنے کے لیے راہل گاندھی نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے خاندان کا کوئی بھی شخص صدارت کا الیکشن نہیں لڑے گا۔ حالانکہ تقریباً ایک درجن ریاستوں کی کانگریس شاخوں نے راہل گاندھی کے حق میں متفقہ قراردادیں منظور کیں۔
اب جبکہ اس خاندان سے باہر کے دو امیدوار ملکارجن کھرگے اور ششی تھرور میدان میں آگئے ہیں تو بھی بی جے پی کے پیٹ کا مروڑ ختم نہیں ہو رہا ہے۔ حالانکہ پارٹی صدر سونیا گاندھی نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ نہ تو ان کا خاندان کسی امیدوار کی حمایت کرے گا اور نہ ہی پارٹی کرے گی اور جو بھی الیکشن لڑ رہے ہیں وہ آزادانہ لڑ رہے ہیں اس کے باوجود بی جے پی کی جانب سے الزامات کا سلسلہ جاری ہے۔ اب یہ کہا جا رہا ہے کہ ملکارجن کھرگے نہرو گاندھی خاندان کے وفادار ہیں اور وہ اس خاندان کے خفیہ امیدوار ہیں۔ اس سے قبل جب اشوک گہلوت کا نام سامنے آیا تھا تو اس وقت بھی ایسی ہی باتیں کہی گئی تھیں۔ یعنی بی جے پی کو کسی کل چین نہیں ہے۔
اگر ہم کانگریس صدور کی فہرست پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ بیشتر صدور نہرو گاندھی خاندان کے باہر کے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر اس کے پہلے صدر تھے امیش چندر بنرجی، اس کے بعد حصول آزادی تک جو لوگ صدر ہوئے ان کے نام ہیں: دادا بھائی نوروجی، بدر الدین طیب جی، جارج یولے، ولیم ویڈربرن، فیروز شاہ مہتہ، پی انندا چارو، الفریڈ ویب، رحمت اللہ سیانی، سی شنکرن نائر، آنند موہن بوس، رومیش چندر دت، این جی چنداورکر، سریندر ناتھ بنرجی، لال موہن گھوش، گوپال کرشن گوکھلے، دادا بھائی نوروجی، راس بہاری گھوش، مدن موہن مالویہ، بشن نرائن در، نواب سید محمد بہادر، بھوپیندر ناتھ بوس، امبیکا چرن مجومدار، اینی بیسنٹ، سید حسن امام، پنڈت موتی لال نہرو، لالہ لاجپت رائے، حکیم اجمل خاں، محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، مہاتما گاندھی، سروجنی نائڈو، سری نواس اینگر، مختار انصاری، ولبھ بھائی پٹیل، راجیندر پرساد، سبھاش چندر بوس اور جے بی کرپلانی۔ ان کے علاوہ بھی اور نام ہیں۔
آزادی کے بعد جو صدور ہوئے ان کے نام ہیں: پٹابھی سیتارمیا، پرشوتم داس ٹنڈن، جواہر لعل نہرو، یو این دھیبار، اندرا گاندھی، نیلم سنجیوا ریڈی، کے کامراج، ایس نجلنگپا، جگجیون رام، شنکر دیال شرما، دیو کانت بروا، راجیو گاندھی، پی وی نرسمہا راؤ، سیتا رام کیسری، سونیا گاندھی اور راہل گاندھی۔ جو نام لیے گئے ہیں ان میں سے کئی ایسے ہیں جو زائد از ایک بار صدر منتخب ہوئے ہیں۔ اور قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ اگر چہ اتفاق رائے سے صدور چنے جاتے تھے تاہم متعدد صدور الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئے۔
اب بھلا بتائیے کہ اس فہرست میں نہرو گاندھی خاندان کے کتنے لوگ ہیں۔ درجنوں صدور میں سے صرف چھ صدور نہرو گاندھی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے باوجود بی جے پی الزام عاید کرتی ہے کہ کانگریس پارٹی اس خاندان سے باہر جا نہیں سکتی اور اس پر اسی خاندان کی گرفت رہے گی۔ اب جبکہ اس خاندان کے باہر سے دو امیدوار میدان میں ہیں تب بھی وہی الزام لگایا جا رہا ہے۔ یہ بات درست کہ بی جے پی نہرو گاندھی خاندان کی دشمنی کے لاعلاج مرض میں مبتلا ہے۔ سیاسی حکما اور ڈاکٹروں سے گزارش ہے کہ خدا را اس مرض کا کوئی علاج ڈھونڈیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔