عید ضرور منائیے، مگر ہر حالت میں پرامن رہیے... ظفر آغا

اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے مقامات پر مسجدوں کے سامنے شر انگیز حرکتیں ہو سکتی ہیں، لیکن آپ انتہائی صبر و تحمل سے کام لیجیے۔

عید، فائل تصویر یو این آئی
عید، فائل تصویر یو این آئی
user

ظفر آغا

کچھ مساجد کے امام اور چند پڑھے لکھے حلقوں کی جانب سے یہ اپیل جاری ہو رہی ہے کہ مسلمان اس سال عید کے تہوار اور خوشیوں سے دور رہیں۔ سوشل میڈیا پر یہ بھی اپیل پڑھنے کو ملی کہ عید کی نماز کالی پٹی باندھ کر پڑھی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تقریباً سارے ہندوستان بھر میں مسلم اقلیت کے دل اداس ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ایک پوری قوم کے سر پر بلڈوزر کا خطرہ منڈلا رہا ہے تو پھر کیسی خوشی اور کہاں کا تہوار۔ لیکن جس قوم کا مقدر ہی مصائب ہو جائے تو اس قوم کے لیے تہواروں کی خوشی کچھ زیادہ ہی اہم ہو جاتی ہے۔ سب بخوبی واقف ہیں کہ مسلم قوم کی تقریباً 90 فیصد آبادی غریب، مزدور و کاریگر طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ دن رات محنت و مزدوری کر اپنی زندگی گزارتا ہے۔ کبھی رکشہ چلا کر تو کبھی ریڑھی پٹری پر سامان بیچ کر، یا پھر کسی ہنر میں مشاقی حاصل کر گھروں میں بجلی، بڑھئی گیری و اسی قسم کے چھوٹے موٹے کام کر وہ اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس کی زندگی میں کب صبح اور کب شام ہوتی ہے اس کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا۔ وہ سوتا بھی ہے تو آرام کے لیے نہیں بلکہ تازہ دم ہونے کے لیے، تاکہ دوسرے روز پھر سخت مشقت کر سکے۔ اس طبقے کی زندگی میں محض ایک تہوار کی خوشی آتی ہے۔ وہ اس موقع پر دن رات اور روز مرہ کی محنت سے بریک بھی لے لیتا ہے اور تہوار منا کر خوش بھی ہو لیتا ہے۔ عید دراصل اسی طبقہ کا سب سے بڑا تہوار ہے۔ وہ سخت محنت کے باوجود زیادہ تر روزے رکھتا ہے، جمعۃ الوداع کی نماز بڑی عقیدت سے پڑھتا ہے، پھر اپنی سخت محنت سے کمائی میں سے بچائے ہوئے چار پیسوں سے اپنے اور اپنے گھر بار کے لیے نئے کپڑے خرید کر اپنے گھر والوں، خاندان والوں اور احباب کے ساتھ عید کی خوشی ایک دن نہیں بلکہ دو چار دن تک مناتا ہے۔ خدارا اس غریب سے عید کی خوشی مت چِھنیے۔ عید ضرور منائیے اور پورے جوش و خروش کے ساتھ، پرامن طریقے سے عید کا تہوار منائیے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ عید یا دوسرے معاملے میں مسلم علما سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ اپنی رائے شرعی معاملات کے علاوہ دوسری چیزوں کے تعلق سے نہ دیں تو بہتر رہے گا۔ چاند ہوا کہ نہیں، یہ اعلان علماء ہی کی جانب سے ہوگا، کسی مسجد میں نماز کس وقت ہوگی، یہ بھی علماء طے کریں، لیکن سیاسی و سماجی معاملات میں علماء دخل اندازی نہ کریں تو قوم کے حق میں ہوگا۔ مسلم قوم کو بابری مسجد کے معاملات سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ بابری مسجد کے معاملے میں کتنی بار کالی پٹی باندھ کر علما کے مشورے پر مسلمانوں نے عید کا بائیکاٹ کیا۔ نتیجہ کیا ہوا! جواب میں ہندو، سادھو اور سَنت رام مندر کے نام پر کھڑے ہو گئے۔ اگر مسلمانوں کی جانب سے سیاسی اور سوشل معاملات میں علما کے رائے مشورے چلیں گے تو پھر ہندو، سادھو اور سنتوں کو دھرم سنسد کرنے کا بھی حق جائز ہوگا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوتا ہے اب یہ کسی کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر مسلمان موجودہ حالات میں کوئی مجموعی قدم اٹھائے گا تو سنگھ ہندو مجموعی جواب بھی دے گا۔ نتیجے سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے خدارا علمائے دین اب مسلم قوم پر رحم کریں اور ہر قسم کے فتنوں، مشوروں اور ٹی وی ڈیبیٹ سے دور رہیں۔ عید کے سلسلے میں بھی اپنی رائے نہ دیں تو بہتر ہوگا۔


تیسری بات یہ ہے کہ مسلم معیشت غیر منظم معیشت سے جڑی ہوتی ہے۔ جیسا عرض کیا کہ 90 فیصد مسلم آبادی کسی منظم روزگار یا کاروبار سے جڑی نہیں ہوئی ہے، وہ سڑکوں اور پٹریوں پر کپڑے، جوتے اور دیگر اشیا بیچ کر اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ عید وہ تہوار ہے کہ جب اس موقع پر خود مسلمان بڑے پیمانے پر اس تہوار کا سامان بیچ کر دو پیسہ کما لیتا ہے، اگر عید کا بائیکاٹ ہوا تو اس کی وہ آمدنی بھی گئی۔ اس لیے ہرگز اس کے پیٹ پر لات مت مارئیے اور عید منائیے۔

لیکن ایک بات کا سخت خیال رکھیے۔ آپ کی جانب سے یہ تہوار انتہائی پرامن طریقے سے منایا جانا چاہیے۔ ہر مسجد سے عید کے خطبے میں پیش امام حضرات لوگوں کو پرامن رہنے کی تلقین و دعا کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے مقامات پر مسجدوں کے سامنے شر انگیز حرکتیں ہو سکتی ہیں۔ آپ انتہائی صبر و تحمل سے کام لیجیے۔ وہی عمل اور صبر کا راستہ اختیار کیجیے جو خود رسول کریم حضرت محمدؐ نے مکہ میں تمام مشکلات کے دور میں اپنایا تھا۔ بس یوں سمجھیے کہ آپ کے لیے یہ مشکلوں کا دور ہے اور اس میں رسول کریم کے راستے پر چلیے۔ دوسری جانب سے کتنی بھی شرانگیز حرکت اور نعرے وغیرہ کیوں نہ ہوں، آپ صرف صبر سے کام لیجیے۔


ان شاء اللہ آپ کی عید خوشیوں سے پُر گزر جائے گی۔ میری جانب سے آپ سب کو عید کی دلی مبارکباد۔ مگر عید ضرور منائیے، مگر ہر حالت میں پرامن رہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 02 May 2022, 4:11 PM