لاتوں کے بھوت باتوں سے کب مانتے ہیں؟... اعظم شہاب
جگنیش کی گرفتاری کے بعد رہائی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جبر کی طاقت محدود ہے اور سنگھ پریوار کو سبق سکھانا ناممکن نہیں ہے۔
بی جے پی والوں کو عدالت سے پھٹکار سننے کی لت لگ گئی ہے۔ یہ لوگ عدالت میں رسوا ہو ہو کر اتنے ڈھیٹ ہوگئے ہیں کہ ان کی موٹی چمڑی پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اس کی تازہ مثال گجرات کے رکن اسمبلی جگنیش میوانی کو دوسری بار ضمانت دیتے ہوئے جسٹس پریش چکرورتی کا نہایت اہانت آمیز تبصرہ ہے۔ میوانی کو اول تو ایک ایسے ٹوئٹ کا بہانہ بناکر گرفتار کیا گیا جس میں کوئی بات قابلِ اعتراض نہیں تھی۔ انہوں نے تو وزیر اعظم کو گجرات دورے کے موقع پر فساد زدہ شہروں ویراول، ہمت نگر اور کھمبات میں امن و امان کے لیے اپیل کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس کے ساتھ انہوں یہ بھی لکھا تھا کہ وزیر اعظم ناتھو رام گوڈسے کو اپنا معبود سمجھتے ہیں۔ سنگھ پریوار کے لوگ لاکھ گاندھی کے نام کا جاپ کریں مگر ان کے دل میں تو گوڈسے ہی براجمان ہیں۔ اس ٹوئٹ پر گجرات کے کسی سنگھی کو اعتراض نہیں ہوا اور آسام تک کروڈوں بی جے پی کارکنان کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچی سوائے آسام میں بیٹھے ایک صاحب کے کہ جنہوں نے ایف آئی آر درج کرا دی۔ بسوا سرما کی پولس تو گویا اس کے انتظار میں بیٹھی تھی۔ وہ فوراً گجرات پہنچ گئی اور میوانی کو گرفتار کرکے آسام لے گئی۔
میوانی کی گرفتاری اپنے آپ میں سیاسی دھاندلی کی انتہا تھی لیکن ان کی ضمانت کے بعد جو کچھ آسام کی پولیس نے کیا کسی مہذب سماج میں اس کا تصور بھی محال ہے۔ جگنیش جس وقت کوکرا جھار کی پولیس کے حراست میں تھے اس وقت ان پر ایک خاتون پولیس اہلکار کے ذریعہ چھیڑ چھاڑ اور بدتمیزی کا الزام لگا کر دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ مزے کی بات یہ رہی کہ یہ ایف آئی آر کوکرا جھار کے بجائے برپیٹا کے پولیس تھانے میں درج ہوئی۔ یہ تو ایک کھلی سازش تھی اور قانونی طریقہ سے ہراساں کرنے کا منصوبہ تھا۔ اول تو دیگر پولیس افسران کی موجودگی میں کوئی بڑا سے بڑا بدمعاش ایسی جرأت نہیں کرسکتا لیکن میوانی تو رکن اسمبلی ہونے کے ساتھ خود پیشے سے وکیل بھی ہیں۔ وہ ایک مضبوط نوجوان لیڈر مانے جاتے ہیں۔ مہاتما گاندھی کی ڈانڈی یاترا سے تحریک لے کر انہوں نے اسمیتا یاترا کے نام سے دلتوں کا جلوس نکالا۔ آگے چل کر راہل گاندھی نے ان کو کانگریس میں شامل کیا۔ یہ بات بی جے پی کو گراں گزری اور وہ دشمنی پر اتر آئی۔ کانگریس نے جگنیش کی گرفتاری کو جمہوریت پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار جرم نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت اپنی اس حرکت سے امبیڈکر کے آئین پر حملہ کیا۔ ایک دلت کو اس طرح ہراساں کرنا سراسر جرم ہے۔
پانچ دن کی حراست کے بعد جب میوانی کو دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تو خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ معاملے میں انہیں ایک ہزار روپئے کے نجی مچلکے پر ضمانت دے دی گئی۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت کی نظر میں اس الزام کی کیا اہمیت ہے۔ میوانی کو ضمانت دیتے ہوئے بارپیٹا ضلع اینڈ سیشن جیوڈیشیل کورٹ نے کہا کہ مبینہ حملہ کے معاملے میں جگنیش کے خلاف پولیس نے جھوٹا کیس درج کیا ہے۔ جسٹس اپریش چکرورتی نے اپنے حکم میں یہاں تک کہہ دیا کہ ’’اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہماری ریاست ایک پولیس اسٹیٹ بن جائے گی جسے سماج برداشت نہیں کر پائے گا۔‘‘ کسی بھی حکومت کے لیے یہ شرم کا مقام ہے لیکن بی جے پی والوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جسٹس اپریش چکرورتی نے تلخ تبصرہ اس لیے کیا کیونکہ انہوں نے پایا ایف آئی آر کے برعکس خاتون کانسٹیبل کا مجسٹریٹ کے سامنے کا بیان بالکل مختلف ہے۔ اس لیے جج صاحب نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ملزم جگنیش میوانی کو طویل مدت کے لیے حراست میں رکھنے کے ارادے سے فوری طور پر یہ جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا ہے۔ انہوں نے صاف کہا کہ یہ عدالتی عمل اور قانون کا غلط استعمال ہے۔ جس انتظامیہ کی ذمہ داری قانون کی پاسداری ہے وہی اگر اپنے سیاسی آقاوں کی خوشنودی کے لیے اسے پامال کرنے لگے تو اس سے بری حالت اور کیا ہوسکتی ہے؟
اس معاملے میں آخری سوال یہ ہے کہ یہ غلیظ حرکت کس کے اشارے پر اور کیوں کی جا رہی ہے؟ ان دونوں سوالات کا جواب خود میوانی نے رہائی کے بعد دیدیا۔ انہوں نے اپنے ردعمل میں کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نےانہیں صرف ایک ٹوئٹ کے لیے آسام کی جیل میں رکھا۔ انہیں گرفتار کرنے کی سازش وزیر اعظم کے دفتر میں تیار کی گئی۔ یعنی یہ حرکت بسوا سرما کی نہیں بلکہ وزیر اعظم کے ایماء پر کی گئی۔ ملک کا سربارہ ایک معمولی رکن اسمبلی سے اس طرح پنجہ آزمائی کرے اور عدالت میں رسوائی اٹھائے یہ اسے زیب نہیں دیتا۔ میوانی نے یہ سوال بھی کیا کہ وزیر اعظم اس کے ذریعہ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟ یہ پوچھنے کے بعد وہ بولے میں ان سب سے خوفزدہ ہونے والا نہیں ہوں اور اس (دھونس دھمکی کے باوجود) بی جے پی اور آر ایس ایس کے خلاف زندگی بھر لڑتا رہوں گا۔ جگنیش میوانی کی اس فتح میں سنگھ پریوار کے جبر کی شکست کا پیغام ہے۔
جگنیش میوانی کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرے ہوئے اور جب وہ ضمانت پر رہا ہوکر آئے تو گوہاٹی میں آسام کانگریس کی طرف سےایک عظیم الشان استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر راشٹریہ دلت ادھیکار منچ کے کنوینر میوانی نے کہا کہ انہیں آسام لانے اور کوکراجھار کی عدالت سے ضمانت ملنے کے بعد، آسام پولیس نے ایک بار پھر بزدلانہ انداز میں ایک خاتون پولیس افسر کو قربانی کا بکرا بنا کر گرفتار کیا۔ گجرات کے ایک ایم ایل اے کو گرفتار کرنے سے بے روزگاری، بجلی، کسانوں اور آسام کے دیگر پسماندہ لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے یہ آسام کے لوگوں کو محسوس کرنا چاہیے۔ بات یہ ہے کہ ہرمحاذ پر ناکامی کے بعد بی جے پی ایسی حرکتیں کر رہی ہے تاکہ لوگوں کو ڈرایا اور دھمکا کر خاموش کیا جاسکے۔
جگنیش میوانی نے اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر آسام پولیس پر ’’بڑے پیمانے پر ماورائے حراستی قتل‘‘ (انکاونٹرس) کی مذمت کی اسے روکنے پر زور دیا۔ انہوں نے عوام کو اس طرح کی ’’وحشیانہ حرکتوں‘‘ کے خلاف احتجاج کرنے کی ترغیب دی۔ میوانی نے کہا کہ ’’آر ایس ایس کے لوگوں نے پہلے ہندوستانی آئین کو سمندر میں پھینکنے کو کہا تھا۔ اس لئے ہم آر ایس ایس اور بی جے پی سے جمہوری کام کی توقع نہیں کر سکتے۔ وہ ملک میں سب کچھ تباہ کر رہے ہیں‘‘۔ سچ تو یہ ہے کہ جو لوگ آئین کو دریا برد کرنا چاہتے ہیں عوام کو چاہیے کہ اپنے ووٹ کی طاقت سے انہیں سمندر میں پھینک دیں۔ جگنیش کی گرفتاری کے بعد رہائی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جبر کی طاقت محدود ہے اور سنگھ پریوار کو سبق سکھانا ناممکن نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔