’ہو سکے تو ہمیں پکڑ لو‘

کسی بھی حکومت کے لئے دس سال کے بعد ہونے والے عام انتخابات بہت مشکل ہوتے ہیں کیونکہ عوام کی ناراضگی حکومت کے خلاف آسمان پر ہوتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر ٹوئٹر</p></div>

تصویر ٹوئٹر

user

سید خرم رضا

مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے بنگلورو میں حزب اختلاف کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے اس لائن ’چیز اس اف یو کین‘ یعنی ’ہو سکے تو ہمیں پکڑ لو‘ سے واضح کر دیا کہ حزب اختلاف کے ذہن میں کیا گھوم رہا ہے۔ دراصل وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کی قیادت نے گزشتہ کئی دنوں کے دوران اپنے بیانات اور اقدامات سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ جیسے وہ حزب اختلاف کا پیچھا کر رہے ہیں۔ گزشتہ دس سالوں میں پہلی مرتبہ ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے حزب اختلاف آگے ہو اور حکمراں جماعت اس کا پیچھا کرتا نظر آ رہا ہے۔

حکمراں جماعت پیچھا کرنے کا تاثر تو کئی باتوں سے دے رہی ہے لیکن جس دن حزب اختلاف کا اجلاس ہونا طے تھا اسی دن حکمراں جماعت نے اپنے اتحاد کا اجلاس بھی طلب کر لیا اور جس طرح حزب اختلاف کے اتحاد کو وزیراعظم نے تنقید کا نشانہ بنایا اس نے حزب اختلاف کے اتحاد کی تو تشہیر کی ہی ساتھ میں اس کے آگے ہونے پر مہر لگانے کا کام بھی کیا۔


صرف یہ ہی نہیں کہ حزب اختلاف کے اجلاس کے دن اپنا اجلاس رکھا لیکن اس کے علاوہ جس اتحاد کے نام پر حکومت میں آئے تھے اس کا اجلاس کبھی نہ بلا کر پہلی مرتبہ حزب اختلاف کے پٹنہ میں منعقد پہلے اجلاس کے بعد ہی اجلاس طلب کیا۔ پہلے اجلاس کے بعد جس طرح مہاراشٹر میں این سی پی کو توڑ کر حکومت میں شامل کیا یہ وہ سب چیزیں ہیں جو حکمراں جماعت کے پیچھے ہونے اور پیچھا کرنے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔

کسی بھی حکومت کے لئے دس سال کے بعد ہونے والے عام انتخابات بہت مشکل ہوتے ہیں کیونکہ عوام کی ناراضگی حکومت کے خلاف آسمان پر ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی مدد اور تقسیم کی سیاست نے حکمراں جماعت کے لئے حکومت کرنا قدرے آسان بنا دیا تھا لیکن حکمرانی کے سوال پر صوبائی حکومتوں کے خلاف لوگوں نے مرکز میں حکمراں جماعت کے خلاف ووٹ دیا اور اس میں وزیر اعظم مودی بھی ان کی مدد نہیں کر سکے جس کا واضح ثبوت ہماچل پردیش اور کرناٹک ہیں جہاں پر عوام نے بی جے پی سے اقتدار لے کر کانگریس کے ہاتھوں میں سونپ دیا۔ ان انتخابات کے نتائج نے وزیر اعظم مودی کی قیادت پر بھی سوال کھڑے کر دیئے۔


ویسے تو کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کی کامیاب بھارت جوڑو یاترا کے بعد ہی حزب اختلاف بلخصوص کانگریس کو حکمراں جماعت کو شکست دینے کی امید بن گئی تھی لیکن اس کی امید کم تھی کہ وزیر اعظم کی مقبولیت اتنی تیز سے کم ہوگی۔ اب لوگ سوال کرنے لگے ہیں کہ جو آدمی بدعنوانی کے خلاف جس پارٹی اور رہنما کے خلاف تین روز قبل تقریر کرتا ہے اس کی پارٹی اسی پارٹی اور اس کے رہنماؤں کے ساتھ مل کر حکومت بناتے ہیں۔ جو قائد کل تک خود کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ ایک اکیلا سب پر بھاری ہے اس کو اچانک اتحاد کی یاد آ جاتی اور وہ اس کے چند روز بعد ہی تحاد کا اجلاس طلب کر لیتا ہے یعنی کہیں نہ کہیں حکمراں جماعت اور اس کی قیادت میں زبردست اعتماد کی کمی آئی ہے۔

بنگلورو میں اختمام پذیر ہوئے حزب اختلاف کے اجلاس میں اتحاد کے نام نے نہ صرف اتحاد کو آگے کر دیا ہے بلکہ یوں کہئے کہ اس نے حکمراں اتحاد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اتحاد کے نئے نام ’آئی این ڈی آئی اے‘ یعنی انڈیا سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ جو چیزیں پہلے حکمراں جماعت اپنے مخالفین پر حملے کے لئے کرتی تھی اس کو اس مرتبہ حزب اختلاف نے گھیر لیا ہے یا یوں کہئے کے لاجواب کر دیا ہے۔ نئے نام میں قوم پرستی، ترقی، سب کے ساتھ کو مرکز پر رکھا ہے اور اس کا شارٹ فارم ایسا رکھا ہے کہ حکمراں جماعت کو اس کی مخالفت کرنا بہت مشکل ہوگا اور اسی لئے سبھی رہنماوں نے بلخصوص ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ کیا ’وہ انڈیا‘ کو چیلنج کریں گے۔ نام کے اعلان کے فورا بعد حکمراں جماعت نے ’بھارت‘ لفظ کو اس کے توڑکے لئے پیش کرنا شروع کر دیا لیکن حزب اخلاف کی جانب سے سوال ہونے لگا کہ ’ڈجیٹل انڈیا، میک ان انڈیا، اسٹارٹ اپ انڈیا وغیرہ کے بارے میں حکمراں اتحاد کا کیا کہنا ہے۔


اتحاد کے نئے نام کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ حزب اختلاف نے حکمراں جماعت پر ثبقت حاصل کر لی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان کے عوام بھی ان کو اپنی حمایت سے نوازتے ہیں یا نہیں۔ فی الحال اس کو بڑھت حاصل ہے اور ممتا بنرجی کے اس جملے نے واضح کر دیا ہے کہ حکمراں جماعت ان کا پیچھا کر رہی ہے اور حزب اختلاف کے اتحاد نے ان پر ثبقت حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے چیلنج کر دیا ہے کہ ’ہو سکے تو ہمیں پکڑ لو‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔