ایک انوکھی پد یاترا جو ملکی سیاست کا رخ بدل سکتی ہے... سہیل انجم
راہل گاندھی کی اس یاترا کو شروع ہی میں جو عوامی حمایت مل رہی ہے اس سے بی جے پی بوکھلا اٹھی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس یاترا کے اثرات کو کیسے کم کرے۔
کانگریس کے سابق صدر، رکن پارلیمنٹ اور سینئر رہنما راہل گاندھی اس وقت پد یاترا پر ہیں۔ اس پد یاترا یا پدل یاترا کو ”بھارت جوڑو یاترا“ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مذہب کے نام پر ملک کو تقسیم کرنے کی سازش کو ناکام بنانا اور مذہب کے نام پر ایک دوسرے سے دور ہو جانے والے لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہے۔ تاکہ یہ ملک جو فرقہ وارانہ ہم آہنگی، گنگا جمنی تہذیب اور برادرانہ یگانگت کا ایک خوبصورت گلدستہ تھا اسے پھر اس کی عظمت رفتہ واپس دلائی جائے اور اس کے حسین چہرے پر نفرت و تعصب کا جو غازہ مل دیا گیا ہے اسے صاف کرکے پھر اس کا فطری حسن دوبالا کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں : مگر مچھ کی جنگ سے بلبل کی سواری تک... سہیل انجم
اس یاترا میں کانگریس کے سینئر رہنما اور کارکن تو شامل ہیں ہی، ملک کا دانشور طبقہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ یاترا جہاں جہاں سے گزر رہی ہے پیار محبت اور بھائی چارے میں یقین رکھنے والے لوگ اس میں شامل ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ یہ ایک انوکھی یاترا ہے اور کوئی تعجب نہیں کہ یہ اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ملکی سیاست کا رخ بدلنے میں کامیاب ہو جائے۔ یہ یاترا سات ستمبر سے تمل ناڈو کے شہر کنیا کماری سے شروع ہوئی ہے اور اگلے سال فروری کے پہلے ہفتے میں کشمیر پہنچ کر ختم ہوگی۔ یاترا 3570 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرے گی۔
یہ یاترا بارہ ریاستوں سے گزرے گی اور ایک سو پچاس دن تک جاری رہے گی۔ یاترا کے ساتھ ساٹھ کنٹینر بھی چل رہے ہیں جو ٹرکوں پر فٹ ہیں۔ قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ کنٹینر دراصل یاتریوں کی رہائش گاہیں ہیں۔ ان میں شب گزاری کے لیے بستر لگے ہوئے ہیں۔ راہل گاندھی کا کنٹینر ایک بستر والا ہے جبکہ کچھ کنٹینر ڈبل بیڈ، کچھ تین بیڈ اور چار بیڈ والے ہیں اور کچھ بارہ بیڈ والے ہیں۔ راہل کے کنٹینر کے علاوہ باقی کسی میں اے سی نہیں ہے صرف پنکھے ہیں۔ البتہ ان میں اٹیچ باتھ روم ہے۔ ان کنٹینروں میں 230 افراد کی شب گزاری کا انتظام کیا گیا ہے۔ یاترا روزانہ دو شفٹوں میں چل رہی ہے۔ پہلی شفٹ صبح سات بجے سے ساڑھے دس بجے تک اور دوسری سہ پہر ساڑھے تین بجے سے شام ساڑھے سات بجے تک۔
یاترا جہاں جہاں سے گزر رہی ہے مقامی باشندوں میں جوش و ولولہ پیدا کرتی جا رہی ہے۔ راہل گاندھی یاترا کے دوران عوام سے بھی مل رہے ہیں اور ان کی شکایات سن رہے ہیں۔ مقامی باشندے بھی کچھ دور تک ان کے ساتھ چلتے ہیں۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا خیال ہے کہ یاترا اپنے اختتام تک پہنچتے پہنچتے پارٹی کارکنوں کے اندر ایک ایسا جوش بھر دے گی جو ملکی سیاست کو نیا رنگ و آہنگ بخشے گا۔ ان کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ یاترا ہندوستانی سیاست میں ایک اہم موڑ ثابت ہوگی اور 2024 کے پارلیمانی انتخابات سے قبل ملکی ماحول کو نفرت کی سیاست سے پاک کرنے میں کامیاب ہوگی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی سیاست میں یاتراؤں کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ یہاں تک کہ آزادی کے پہلے سے ہی اس کی تاریخ ملتی ہے۔ مہاتما گاندھی نے ڈانڈی مارچ کیا تھا جو ایک تاریخی یاترا تھی۔ اسی طرح 1983 میں جنتا پارٹی کے صدر چندر شیکھر نے کنیا کماری سے دہلی تک کی پیدل یاترا کی تھی۔ بعد میں وہ ہندوستان کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تھے۔ راہل گاندھی کے والد اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے 1990 میں بھارت یاترا کی تھی۔ یاترا کے دوران وہ ٹرین کے سکنڈ کلاس ڈبے میں سفر کرتے رہے۔
چندر شیکھر نے کنیا کماری سے دہلی تک پیدل یاترا کی تھی اور راہل گاندھی بھی پیدل یاترا کر رہے ہیں۔ آندھرا پردیش کے سابق وزیر اعلی اور فلم اداکار این ٹی راما راؤ کی یاترا بھی کافی مقبول ہوئی تھی۔ لیکن اس دوران ایک یاترا ایسی ہوئی جس نے ملک کو خاک و خون میں ڈبو دیا۔ وہ یاترا تھی بی جے پی کے سینئر رہنما ایل کے آڈوانی کی۔ انھوں نے 1990 میں گجرات کے سومناتھ سے ایودھیا تک کی یاترا نکالی تھی لیکن وہ ایودھیا ک نہیں پہنچ سکی تھی۔ اس کا مقصد ایودھیا میں رام مندر کی تحریک کے لیے ماحول سازگار کرنا تھا۔ لیکن ان کی یاترا جہاں جہاں سے گزرتی خاک و خون کی ایک لکیر بناتی چلی جاتی۔
یاترا کے دوران مختلف مقامات پر فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے۔ جب یاترا بہار میں پہنچی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ لالو یادو نے 23 اکتوبر 1990 کو سمستی پور میں انہیں گرفتار کر لیا تھا۔ یہ ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ ایل کے آڈوانی کا سیاسی سورج اس وقت نصف النہار پر تھا اور بڑی تیزی سے چمک رہا تھا۔ لیکن لالو نے ان کو گرفتار کرکے ان کی سیاست پر گہن لگا دیا تھا۔ حالانکہ بعد میں اس یاترا اور دیگر وجوہات سے ایودھیا میں رام مندر کی تحریک کا یہ اثر ہوا کہ بابری مسجد کو چھ دسمبر 1992 کو دن کے اجالے میں شہید کر دیا گیا۔ ایل کے آڈوانی کی یاترا پیدل نہیں تھی بلکہ وہ بس سے یاترا کر رہے تھے اور اسے ہندو مذہب کی ایک مقدس سواری رتھ کی شکل دی گئی تھی اور اس یاترا کے ایک اہم منتظم نریندر مودی تھے جو بعد میں گجرات کے وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم بنے۔
بہرحال ان یاتراؤں کے درمیان راہل گاندھی کی یاترا ایک انوکھی یاترا ہے۔ سیاست میں یاترا کا مطلب اگر دیکھا جائے تو پد یاترا یا پیدل یاترا ہی ہوتی ہے۔ راہل گاندھی نے اس حقیقت کو سمجھا اور وہ بھارت جوڑو یاترا پر نکل پڑے ہیں۔ ان کی اس یاترا کو شروع ہی میں جو عوامی حمایت مل رہی ہے اس سے بی جے پی بوکھلا اٹھی ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس یاترا کے اثرات کو کیسے کم کرے۔ لہٰذا اس نے راہل گاندھی کے خلاف پروپیگنڈہ مشینری کو تیز کر دیا ہے اور ابھی تو فی الحال اس کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ انھوں نے جو ٹی شرٹ پہنی ہے وہ 41 ہزار روپے کی ہے۔
بی جے پی کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر بی جے پی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے اور اسے یاد دلایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے کس طرح دس لاکھ کا سوٹ پہنا تھا۔ انھوں نے ایک ایسا کپڑا تیار کرایا تھا جس پر لائن سے انگریزی میں نریندر مودی نریند رمودی لکھا ہوا تھا۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اپنا پرچار اس طرح خود کیا جائے کہ اپنے نام کا کپڑا تیار کروا کر اس کا سوٹ پہنا جائے۔ اس وقت راہل گاندھی نے مودی سرکار کو سوٹ بوٹ کی سرکار کہا تھا جس پر حکومت تلملا اٹھی تھی۔
سوشل میڈیا صارفین بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو یاد دلا رہے ہیں کہ مودی تو ڈیڑھ لاکھ کا چشمہ پہنتے ہیں۔ سوا لاکھ کا قلم لگاتے ہیں۔ لاکھوں روپے کا موبائل رکھتے ہیں۔ اور کھانے میں کیا کیا قیمتی غذائیں کھاتے ہیں وہ الگ ہے۔ عوام میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ بہت مہنگے کپڑے پہنتے ہیں اور جو لباس ایک بار پہن لیا وہ دوبارہ نہیں پہنتے۔ ان حقائق کے باوجود بی جے پی راہل گاندھی پر بربری کمپنی کی مہنگی ٹی شرٹ پہننے کا پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔ حالانکہ سوشل میڈیا پر بی جے پی لیڈروں کی اولاد کے بربری ٹی شرٹ پہننے کی بھی تصویریں وائرل کی جا رہی ہیں۔
ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی راہل گاندھی کی یاترا سے گھبرا اٹھی ہے اور وہ آگے مزید گھٹیا پروپیگنڈہ کرے گی۔ کوئی تعجب نہیں کہ یاترا جوں جوں آگے بڑھے اس کے خلاف گھناونی سازشیں کی جائیں اور یاترا کو ناکام بنانے کے لیے راہل گاندھی پر بے بنیاد الزامات لگائے جائیں۔ لیکن عوام سب سمجھتے ہیں۔ یہ پبلک ہے سب جانتی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔