مگر مچھ کی جنگ سے بلبل کی سواری تک... سہیل انجم

کاش اس معاملے پر سوال اٹھانے والوں کو بھی بھکتوں کی مانند انترگیان ہو جاتا تو وہ اس واقعے پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔

تصویر بشکریہ ٹوئٹر / @satishacharya
تصویر بشکریہ ٹوئٹر / @satishacharya
user

سہیل انجم

ابھی حال ہی میں دو انتہائی دلچسپ کارٹون نظر آئے۔ ایک کارٹون میں ایک پرندہ ایک شاخ پر بیٹھا ہوا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مجھے کیوں گھور رہے ہو میں بلبل نہیں ہوں۔ جبکہ دوسرا کارٹون ایک بلبل کا تھا۔ وہ اپنے ساتھی بلبل سے کہہ رہی ہے کہ میں کسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتی، لہٰذا میں نے فوراً مان لیا۔ قارئین سمجھ گئے ہوں گے کہ ان دونوں کارٹونوں کا حوالہ کس پس منظر میں دیا گیا ہے۔ جی ہاں! آپ بالکل صحیح سمجھے۔ پس منظر ہے آر ایس ایس کے لیڈر ساورکر کے بلبل کے پروں پر بیٹھ کر جیل سے نکلنے اور ماتری بھومی کا درشن کرکے واپس آجانے کے واقعے کا۔

جن کو یہ بات نہیں معلوم ان کے لیے عرض ہے کہ کرناٹک میں درجہ آٹھ کے نصاب کی ایک کتاب میں ایک سبق ہے جس میں لکھا ہوا ہے کہ ہندوتوا کے نظریہ ساز اور آر ایس ایس کے لیڈر وی ڈی ساورکر جب انڈمان نکوبار کی سیلولر جیل میں قید تھے تو وہ بلبل کے پروں پر بیٹھ کر جیل سے نکلتے اور سیر کرکے واپس آجاتے تھے۔ یہ مضمون ایک مصنف کے ٹی گٹی کا لکھا ہوا ہے۔ وہ انڈمان کی سیلولر جیل کا اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جس کمرے میں ساورکر کو بند کیا گیا تھا اس میں کوئی سوراخ نہیں تھا۔ نہ تو کہیں سے ہوا اور روشنی کا گزر ہو سکتا تھا۔ اس کے باوجود روزانہ ایک بلبل پتہ نہیں کہاں سے آجاتی اور ساورکر اس کے پروں پر بیٹھ کر ماتری بھومی کی سیر کرکے جیل کے سیل میں واپس آجاتے تھے۔


اس پر اہل علم کے حلقوں میں زبردست ہنگامہ ہے۔ لیکن بی جے پی اور اس کی حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بلکہ اس مضمون کا دفاع کیا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک ادبی استعارہ ہے۔ واہ رے بی جے پی، اس کی حکومت اور اس کے قابل ترین ذمہ داران؟ کیا استعارہ ایسے لکھا جاتا ہے۔ کیا معصوم بچوں کے ذہنوں کو اس قسم کی تحریر سے گمراہ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اگر آپ کسی اور سے پوچھیں گے تو وہ اس کا نفی میں جواب دے گا۔ لیکن اگر کسی بی جے پی لیڈر یا کارکن سے پوچھیں گے تو وہ کہے گا کہ اس میں کیا برائی ہے۔ بلکہ وہ تو چار قدم آگے بڑھ کر یہ تک کہہ دے گا کہ ساورکر تو بہت ویر تھے، بہت بہادر تھے، وہ بڑے کرشماتی تھے۔ اگر کسی سبق میں ایسا لکھا ہوا ہے تو بالکل ایسا ہی ہوا ہوگا۔ ساورکر کے لیے بلبل کے پروں پر بیٹھ کر اڑنا اور پھر واپس آجانا کوئی مشکل نہیں تھا۔

وہ تو اس کی تائید میں تریپورہ کے سابق بی جے پی وزیر اعلیٰ بپلب کمار دیب کی یہ بات پیش کرے گا کہ مہابھارت کی جنگ کے دوران انٹرنیٹ موجود تھا۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سنجے نابینا مہاراجہ دھرت راشٹر کو جنگ کے جو واقعات بتاتا تھا وہ انٹرنیٹ کی مدد سے بتاتا تھا۔ لہٰذا جب ان دنوں میں انٹرنیٹ موجود تھا تو سیلولر جیل کی اس کال کوٹھری سے جس میں کوئی معمولی سا سوراخ بھی نہیں تھا، ساورکر ضرور نکل جاتے رہے ہوں گے۔ لیکن ایک بات نہیں سمجھ میں آتی کہ جب وہ بلبل کے پروں پر بیٹھ کر جیل سے نکل جاتے تھے تو پھر ان کو جیل کی کال کوٹھری میں واپس جانے کی کیا ضرورت تھی۔ ان کو کہیں چھپ جانا چاہیے تھا۔ اگر کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی تو اسی بلبل کے گھونسلے میں چھپ جاتے۔


کاش ساورکر کو اس بات کا خیال آیا ہوتا۔ اگر آیا ہوتا تو ان کو انگریزوں سے معافی مانگ کر جیل سے باہر نکلنے کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی اور خواہ مخواہ ایک تنازع پیدا نہیں ہوتا۔ لوگ یہ کہہ کر بی جے پی اور آر ایس ایس والوں کو چڑھاتے نہیں کہ تمھارے لیڈر جن کو تم ویر یعنی بہادر کہتے ہو وہ تو بڑے بزدل اور ڈرپوک تھے۔ وہ تو انگریزوں سے معافی مانگ کر جیل سے باہر آگئے تھے۔ حالانکہ ان کا معافی مانگنا ایک تاریخی حقیقت ہے لیکن آر ایس ایس والے اسے ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ وہ مختلف قسم کے بہانے بنا کر ان کے معافی نامے کو نئے نئے معنی و مفاہیم پہنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

خیر! ساورکر کے بلبل کے پروں پر بیٹھ کر اڑنے اور پھر ماتری بھونی کے درشن کرکے جیل میں واپس پہنچ جانے پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ حیرت تو اس وقت بھی نہیں ہوئی تھی جب وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں یہ چھپا کہ بچپن میں انھوں نے مگر مچھ سے جنگ لڑی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو گجرات میں مگرمچھ سے متاثرہ جھیل میں تیراکی کے دوران ایک مگرمچھ نے ان پر حملہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ان کے ایک پاؤں پر نو ٹانکے لگے تھے۔


جب 2014 میں وہ وزیر اعظم بنے تو ان کی سوانح عمری ”نریندر مودی: دی گیم چینجر“ شائع ہوئی جسے صحافی سدیش کے ورما نے لکھا ہے۔ وہ اس میں لکھتے ہیں کہ ایک نوجوان لڑکے کے طور پر صبح کے وقت خاندانی چائے کی دکان پر کام کرنے کے بعد مودی روزانہ وڈ نگر میں اپنے گھر کے قریب شرمشٹھا جھیل پر پہنچ جاتے تھے۔ وہ تیر کر جھیل کے بیچ میں واقع ایک مندر تک جاتے، اس کی چوٹی پر لگے جھنڈے کو چھوتے اور ساحل پر واپس آجاتے۔ وہ روزانہ تین بار ایسا کرتے تھے۔

کتاب کے مطابق ایک بار نریندر اس وقت بری طرح زخمی ہو گئے جب ایک مگرمچھ نے ان کے بائیں پاؤں کو اپنی دم سے ٹکر مار دی۔ مگرمچھ کی دم مضبوط ہوتی ہے، اس کا مارا جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے آپ کو تلوار سے مارا گیا ہو۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ جھیل میں 29 مگرمچھ تھے۔ نریندر اس وقت آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے۔ انھیں ٹخنے کے قریب بائیں پاؤں پر نو ٹانکے لگے اور ایک ہفتے سے زیادہ وقت تک وہ بستر پر پڑے رہے۔ ان کے بائیں پاؤں پر کٹے ہوئے نشان اب بھی موجود ہیں۔


ہمیں تو اس وقت بھی حیرت نہیں ہوئی جب نریند رمودی نے پچھلے سال بنگلہ دیش کے دورے کے موقع پر کہا کہ انھوں نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ لڑی تھی اور جیل بھی گئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ دنوں جب وزیر اعظم کے دفتر سے ایک آر ٹی آئی کے ذریعے اس کی تفصیلات معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تو ان کے دفتر نے کہہ دیا کہ ان کے پاس اس سلسلے میں کوئی دستاویز موجود نہیں ہیں۔ حالانکہ ان کے دفتر کو اس بارے میں اسی طرح تصدیق نامہ دے دینا چاہیے تھا جیسے کہ ان کی ڈگری کے بارے میں دیا گیا تھا۔

قارئین کو یاد ہوگا کہ یہ بتایا گیا تھا کہ نریندر مودی نے ”اینٹائر پولیٹکس“ میں ایم اے کیا ہے۔ حالانکہ دنیا کے کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں ایسا کوئی سبجکٹ نہیں ہے۔ ہمیں تو اس وقت بھی حیرت نہیں ہوئی تھی جب کمپیوٹر سے تیار کی ہوئی ان کی ڈگری پریس کو دکھائی گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ جس سال ان کے ایم اے کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا اس وقت تک کمپیوٹر کی ایجاد ہی نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی مودی جی کی ڈگری کمپیوٹر سے بنی یا نہیں بنی۔ جب ان کی ڈگری اس طرح بن سکتی ہے تو پھر بنگلہ دیش کی جنگ میں ان کے جیل جانے کا سرٹیفکٹ بھی دیا جا سکتا ہے۔


بہرحال ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ندی میں 29 مگر مچھ ہیں وہ روزانہ تین بار اس میں تیرنے کیوں جاتے تھے اور صرف ایک بار ہی ایک مگر مچھ نے اپنی پونچھ سے ان پر حملہ کیوں کیا۔

خیر، جب ان تمام باتوں پر ہمیں کوئی حیرت نہیں ہوئی تو پھر ساورکر کے بلبل کے پروں پر بیٹھ کر جیل سے نکلنے اور پھر واپس آنے پر لوگوں کو حیرت کیوں ہے۔ کاش اس معاملے پر سوال اٹھانے والوں کو بھی بھکتوں کی مانند انترگیان ہو جاتا تو وہ اس واقعے پر کوئی سوال نہیں اٹھاتے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔