کانگریس کا انتخابی منشور، یعنی ایک بلو پرنٹ جو ہندوستان کی روح و جمہوریت کو ٹھیک کرنے کے لیے ضروری!

میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے کانگریس کے انتخابی منشور میں کئی سفارشات ہیں، لیکن افسوسناک ہے کہ میڈیا ان سفارشات کو دفن کرنے پر آمادہ ہے کیونکہ وہ اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کا مادہ ہی کھو چکی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر قومی آواز / وپن</p></div>

تصویر قومی آواز / وپن

user

قومی آواز تجزیہ

کانگریس کے انتخابی منشور سے متعلق صبح کے اخبارات میں نامناسب تبصروں سے حیران ہو کر ہم نے فیصلہ کیا کہ ’ڈاکٹر گوگل‘ سے اس بارے میں مزید پوچھا جائے۔ پھر ہم نے بالکل آسان الفاظ ’کانگریس مینی فیسٹو 2024‘ سرچ کیا۔ منصوبہ یہ پتہ کرنے کا تھا کہ گوگل کا ایلگوردم کیا نتیجہ سامنے لاتا ہے۔ پھر یہ دیکھ کر کوئی حیرانی نہیں ہوئی کہ سبھی ٹاپ کلسٹر ریزلٹ انتخابی منشور کے مبینہ ’تخریبی‘ اور ’مسلم لیگی ذہنیت‘ سے متعلق وزیر اعظم کے بیان پر مشتمل سرخی لگا رہے تھے۔ کانگریس نے جس انتخابی منشور کو جاری کیا، وہ دستاویز نظر نہیں آ رہا تھا۔ ان سرخیوں میں ہمیں ایسا کچھ بھی نظر نہیں آیا جس سے لگتا ہے کہ کانگریس کے انتخابی منشور کو سمجھنے یا اس کی تشریح کی کوئی سنجیدہ کوشش کی گئی ہو۔ حتیٰ کہ وزیر اعظم کے بیان کو چیلنج کرنے والے مواد بھی نہیں ملے۔

اس معاملے نے ہمیں حیران نہیں کیا، حتیٰ کہ انتخابی منشور میں ہندوستانی میڈیا کی حالت اور اس کے بندھن میں جکڑے جانے کی وجوہات کا تذکرہ ہے۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ تمام میڈیا ہاؤسز، چاہے وہ کسی بھی سائز کے ہوں، انھیں کی ملکیت کے ڈھانچہ (بالواسطہ و بلاواسطہ)، کراس ہولڈنگز، ریونیو اسٹریمز وغیرہ کو ظاہر کرنا ہوگا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آزادانہ صحافت کے دفاع کے مقصد سے کچھ قوانین بنائے جائیں گے۔ حکومت کے اختیارات کو محدود کیا جائے گا، میڈیا میں اجارہ داری کو روکنے کے لیے قانون بنایا جائے گا اور ساتھ ہی اس انتخابی منشور میں میڈیا کے مختلف طبقات کی کراس آنرشپ اور میڈیا پر کاروباری تنظیموں کے کنٹرول کو ختم کرنے کے لیے بھی قانون سازی کا تذکرہ ہے۔


اس انتخابی منشور میں تو اس بات کا اظہار ہے کہ بہت سے نئے قوانین (مثلاً براڈکاسٹنگ سروسز [ریگولیشن] بل 2023، ڈیجیٹل پرسنل ڈاٹا پروٹیکشن ایکٹ 2023، پریس اینڈ رجسٹریشن پیریوڈیکلز ایکٹ 2023 وغیرہ) حکومت کو سنسرشپ کے بے لگام اختیارات مہیا کراتے ہیں۔ اس میں یہ بھی ہے کہ اگر کانگریس برسراقتدار ہوئی تو مذکورہ بالا پہلا بل واپس لے لیا جائے گا۔ علاوہ ازیں بیک ڈور سنسرشپ کو ختم کرنے کے لیے دونوں قوانین کی پابندی والی شقوں میں یا تو ترمیم کی جائے گی، یا پھر انھیں حذف کر دیا جائے گا۔ میڈیا کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے اس میں کئی دیگر سفارشات بھی ہیں، لیکن افسوسناک ہے کہ ہندوستانی میڈیا ان سفارشات کو دفن کرنے پر آمادہ ہے کیونکہ وہ اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کا مادہ ہی کھو چکا ہے۔

کانگریس کا انتخابی منشور ان طریقوں کا ذکر کرتا ہے جس کے ذریعہ ہماری جمہوریت کو کھوکھلا کیا گیا ہے۔ اس میں ریاست کے کسی بھی حصہ میں مضبوط عزائم کے ساتھ جرم کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے اداروں پر حملوں کا بھی تذکرہ ہے۔ یہ خود مختار اداروں، مثلاً الیکشن کمیشن آف انڈیا، سی اے جی، سنٹرل انفارمیشن کمیشن اور نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کو ختم کرنے کی کوششوں کی طرف بھی اشارہ ہے۔ اس میں شہریوں کی زندگی پر حکومت کی حد سے زیادہ نگرانی اور ہمارے فوجداری قوانین میں ترمیم کی اشد ضرورت پر ہو رہی بات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہ منتخب نمائندوں کو اپنے مینڈیٹ کے ساتھ کھلواڑ کرنے اور اس کا مذاق بنانے سے روکنے کا خاکہ بھی پیش کرتا ہے۔


اس انتخابی منشور میں ’جمہوریت کا تحفظ، خوف کو دور کرنا، آزادی کی بحالی‘ عنوان سے ایک سیکشن ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ’’ہندوستان کی جمہوریت ایک خالی خول میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔‘‘ اس لیے عوام کی آزادی کو بحال کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے جس کے لیے ’خوف سے آزادی‘ کا راستہ چنا گیا ہے۔ اس کے تحت میڈیا کی مکمل آزادی اور تقریر و اظہارِ رائے کی آزادی کو بحال کیا جائے گا۔ قانون کی ایسی شقوں کو ہٹانے کا وعدہ ہے جو آزادیٔ اظہار پر قدغن لگاتے ہیں یا رازداری کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس انتخابی منشور میں وعدہ کیا گیا ہے کہ لوگوں کو پرامن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے جمع ہونے اور تنظیمیں بنانے کے حق کو برقرار رکھا جائے گا، کھانے اور لباس کے ذاتی انتخاب میں کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جائے گی، محبت کرنے والوں کی شادی پر روک نہیں ہوگی، حتیٰ کہ ان تمام قوانین کو منسوخ کیا جائے گا جو ذاتی آزادی میں بلاوجہ مداخلت کرتے ہیں۔ ہر وہ شخص جس نے کبھی ہمارے آئینی اقدار کی پروا کی ہے، اور گزشتہ 10 سالوں میں ہندوستان میں رہ رہا ہے، وہ جانتا ہے کہ ان برسوں میں ہندوستانی شہریوں کی زندگیوں سے آزادی کس طرح چھینی گئی ہے، اور یہی حقیقت ہے۔

منصفانہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ انتخابی منشور ایک قابل ذکر دستاویز ہے۔ کچھ مبصرین نے نیک نیتی کے ساتھ اس منشور کا جائزہ لیا ہے اور اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ یہ ایک بہترین ارادہ کا اظہار ہے۔ جس طرح انتخابی منشور میں ہماری گھٹن زدہ جمہوریت، اسے کس طرح کچلا جا رہا ہے اور ایسا کیوں ہو رہا ہے، اس سے متعلق وضاحت کی گئی ہے، وہ قابل قدر ہے۔ مجموعی طور پر غور کیا جائے تو یہ انتخابی منشور ہندوستان کی روح و اس کی جمہوریت کو ٹھیک کرنے کا ایک بلو پرنٹ یعنی خاکہ ہے۔ یہ ہندوستان کے تہذیبی شعور کے ساتھ دوبارہ جڑنے کی کوشش ہے اور ملک کو اس کے متنوع افراد کی مرضی کا مکمل اظہار بننے کی طرف رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔