لگاتار اٹھ رہا الیکٹورل بانڈ کا ایشو، لیکن کیا ہوگا آگے؟... ارون کمار

سرکاری ایجنسیوں کو اب تک جانچ اور مقدمہ چلانا شروع کر دینا چاہیے تھا، لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری ایجنسیوں پر برسراقتدار طبقہ کے خلاف آزادانہ جانچ سے متعلق بھروسہ کر سکتے ہیں؟

<div class="paragraphs"><p>علامتی تصویر، سوشل میڈیا</p></div>

علامتی تصویر، سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

الیکٹورل بانڈ سے متعلق روزانہ نئے نئے انکشافات میڈیا میں ہو رہے ہیں۔ جو باتیں سرکاری ایجنسیوں کو سامنے رکھنا چاہیے تھا، اسے میڈیا ظاہر کر رہا ہے۔ اس سے یہ ثبوت مل رہا ہے کہ برسراقتدار طبقہ کے ذریعہ گلا گھونٹ دیے جانے کے بعد بھی اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔ 10 لاکھ روپے اور ایک کروڑ روپے قیمت والے خریدے گئے بیشتر بانڈس سے صاف ہے کہ انھیں امیروں اور صنعت کاروں کے ذریعہ خریدا گیا تھا۔ کاروبار کرنے والے لاگت کم کر کے زیادہ منافع کمانے کے لیے کام کرتے ہیں۔

سوال اٹھتا ہے کہ عطیہ دینے سے زیادہ فائدہ کیسے ہوتا ہے؟ بدلے میں مدد کرنے کے جذبہ کی بنیاد پر پالیسیوں میں ہیر پھیر کے ذریعہ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کیوں خسارہ میں چل رہی یا کم منافع کمانے والی کمپنیاں بھی برسراقتدار طبقہ کو عطیہ دیتی ہیں۔ چونکہ عطیہ سے خسارہ بڑھ جاتا ہے اور اس کا سیدھا اثر منافع پر پڑتا ہے، اس لیے فطری ہے کہ منافع عطیہ سے کہیں زیادہ بڑا ہونا چاہیے۔ سچائی تو یہی ہے کہ بدعنوانی میں منافع تو کہیں زیادہ ہوتا ہے۔


برسراقتدار پارٹی کو عطیہ کا ’ریٹرن‘ کئی طرح سے ملتا ہے- پرکشش ٹھیکہ، کاروبار کے حق میں پالیسی میں ہیر پھیر، غیر قانونی سرگرمی کے لیے قانونی چارہ جوئی کو بند کرنا اور غیر قانونی کاروبار کو نظر انداز کرنا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ چندہ وصول کرنے کے لیے کاروباریوں کے ہاتھ مروڑے جائیں۔ الیکٹورل بانڈ کے اعداد و شمار سے ان سب کی تمام مثالیں باہر جھانکنے لگی ہیں۔ لیکن برسراقتدار پارٹی کے لیڈران ان سے بے پروا نظر آتے ہیں۔

یکم اپریل 2024 کو تھانتھی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں وزیر اعظم اعتماد سے بھرے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ انھوں نے کئی باتیں کہیں۔ پہلا، الیکٹورل بانڈ سیاسی پارٹیوں کو ملنے والی فنڈنگ کے ذرائع کا پتہ لگانے اور الیکٹورل فنڈنگ میں شفافیت لانے کا ایک نظام تھا۔ دوسرا، اس ایشو نے نہ تو پارٹی کو شرمندہ کیا ہے اور نہ ہی بی جے پی کو کوئی جھٹکا لگا ہے۔ تیسرا، اپوزیشن کو سامنے آئی سچائی پر پچھتاوا ہوگا۔ چوتھا، 2014 سے پہلے کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ سیاسی پارٹیوں کو فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے۔ آخر میں انھوں نے کہا کہ منصوبہ اچھا ہے، لیکن اگر خامیاں ہیں تو انھیں دور کیا جا سکتا ہے۔


جو بات سامنے آئی، وہ یہ کہ انھیں لگتا ہے کہ برسراقتدار طبقہ کو نہیں بلکہ اپوزیشن کو فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن 50 فیصد سے زیادہ چندہ برسراقتدار پارٹی کو ملا۔ مطلب یہ ہے کہ اپوزیشن کی تو جانچ ہوگی، لیکن بی جے پی کی نہیں۔

اس کے علاوہ اس منصوبہ کو عطیہ دہندگان کے نام راز میں رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ یعنی یہ منصوبہ سیاسی پارٹیوں کی فنڈنگ کے لیے ایک شفاف نظام کیسے ہو سکتا ہے؟ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عطیہ دہندگان کے نام سامنے آئے ہیں جس میں منصوبہ کو ’غیر آئینی‘ قرار دیا گیا ہے اور اسٹیٹ بینک سے سبھی ڈاٹا کا انکشاف کرنے کو کہا گیا۔ دراصل اس منصوبہ کو ڈیزائن کرنے والوں کے مطابق نہ صرف عطیہ دہندگان کے نام بلکہ دولت کا پتہ بھی پبلک نہیں کیا جانا تھا۔


سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے فوراً بعد وزیر داخلہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ اب انتخابات میں بلیک منی سے فنڈنگ ہوگی۔ انھوں نے الزام لگایا کہ الیکٹورل بانڈ وہائٹ منی سے خریدے گئے تھے، اس لیے الیکٹورل فنڈنگ قانونی پیسے سے کی جا رہی تھی۔ انھوں نے سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ حاصل عطیہ کے تناسب کا مقابلہ کر کے برسراقتدار طبقہ کے ذریعہ حاصل بڑی رقم کو بھی مناسب ٹھہرایا۔ انھوں نے دلیل دی کہ پارلیمنٹ میں فی رکن پارلیمنٹ دیکھا جائے تو بی جے پی کو کچھ اپوزیشن پارٹیوں کے مقابلے کم ہی رقم ملتی ہے۔

وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا کہ ایک بار الیکٹورل بانڈ کی مکمل جانکاری سامنے آنے کے بعد اپوزیشن کے پاس دکھانے کے لیے کوئی چہرہ نہیں بچے گا۔ مطلب یہی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ کس کو کس سے کتنا ملا۔ لیکن وہ ڈیزائن کے برعکس تھا۔ ایس بی آئی نے اپنے ابتدائی رد عمل میں یہ بھی کہا کہ اس کے پاس یہ ریکارڈ نہیں ہے اور دو الگ الگ سائلو میں رکھے گئے ڈاٹا کو اکٹھا کرنے میں تین ماہ لگیں گے۔ وزارت مالیات میں سکریٹری ایس سی گرگ، جو 2018 میں اس منصوبہ کے ڈیزائن انچارج تھے، نے بھی کہا تھا کہ ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے عطیہ دہندگان اور عطیہ حاصل کرنے والوں کا ملان کیا جا سکے۔ یہ غلط ثابت ہوا۔


ناقدین اور اپوزیشن پارٹیوں کو شروع سے ہی خوف تھا کہ صرف حکومت کو ہی پتہ چلے گا کہ کس نے کس پارٹی کو کتنا چندہ دیا۔ مطلب یہ تھا کہ یہ منصوبہ نہ صرف غیر شفاف تھا بلکہ اس میں برسراقتدار طبقہ کے ذریعہ ہیر پھیر کی گنجائش بھی تھی۔ یہ اپوزیشن پارٹیوں کے عطیہ دہندگان کو دھمکی دے کر ان کی فنڈنگ کو دبا سکتا تھا۔

اس بات کا سہرا میڈیا کو ملنا چاہیے کہ عطیہ کے معاملے میں مدد کرنے کا جذبہ اور پیسے کے لین دین کا انکشاف ہوا ہے۔ سرکاری ایجنسیوں کو اب تک جانچ اور مقدمہ چلانا شروع کر دینا چاہیے تھا۔ خسارہ میں چل رہی کمپنیوں کے ذریعہ عطیہ کی گئی رقم اور جہاں عطیہ منافع سے کہیں زیادہ ہے، وہاں منی لانڈرنگ کا معاملہ ہو سکتا ہے۔ نامعلوم کمپنیوں کے ذریعہ کیا گیا عطیہ شیل کمپنیوں کا بھی ہو سکتا ہے۔ ان معاملوں میں جانچ اور قانونی چارہ جوئی شروع کی جانی چاہیے۔


کیا سرکاری ایجنسیوں پر برسراقتدار طبقہ کے خلاف آزادانہ جانچ کرنے کا بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟ عدالتوں کی نگرانی میں خود مختار کمیٹی کی ضرورت ہے۔ درست ہے کہ ہنڈن برگ-اڈانی معاملہ پر عدالت کے ذریعہ مقرر کمیٹی کے ساتھ حالیہ تجربہ بہت حوصلہ بخش نہیں تھا، لیکن کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔

Scroll.in نے 27 مارچ کو تفصیل سے بتایا کہ کس طرح ’یوٹیل سیٹ وَن ویب جو بغیر نیلامی کے سیٹلائٹ اسپیکٹرم حاصل کرنے کی حالت میں ہے، کی ملکیت بھارتی انٹرپرائزیز، یو کے حکومت، سافٹ بینک اور دیگر کے پاس ہے‘۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دسمبر 2023 میں حکومت کے ذریعہ نیا ٹیلی مواصلات بل پیش کرنے سے پہلے اور بعد میں بھارتی گروپ نے برسراقتدار پارٹی کو مجموعی طور پر 150 کروڑ روپے کا عطیہ دیا۔ بل جلد بازی میں پاس ہو گیا اور کرسمس سے قبل کی شام پر قانون بن گیا۔


بھارتی ایئرٹیل نے 100 کروڑ روپے کے بانڈ خریدے اور انھیں پوری طرح سے بی جے پی کو عطیہ کر دیا۔ 21 نومبر کو وَن ویب کو سیٹلائٹ اسپیکٹرم حاصل کرنے کی اہلیت حاصل کرنے سے متعلق خلائی ریگولیٹری سے ہری جھنڈی مل گئی۔ بھارتی نے 50 کروڑ روپے کے مزید بانڈ خریدے جنھیں 12 جنوری 2024 کو بی جے پی نے کیش کر لیا۔ ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ بھارتی گروپ کی کمپنیوں بھارتی انفراٹیل اور بھارتی ٹیلی میڈیا نے بھی رقم عطیہ کیا۔

اتنا ہی نہیں، بھارتی ایئرٹیل برسراقتدار پارٹی کو چندہ دینے والی سب سے بڑی خسارہ والی کمپنی ہے۔ اس کا مجموعی خسارہ 76954.7 کروڑ روپے تھا، اسے 8250 کروڑ روپے کا ٹیکس ریفنڈ ملا اور اس نے 198 کروڑ روپے کا عطیہ دیا جس میں 99.7 فیصد بی جے پی کو ملا۔ کیا کمپنی نے ٹیکس ریفنڈ حاصل کرنے کے لیے بھی ادائیگی کی تھی؟


جس طرح دہلی آبکاری گھوٹالہ کی جانچ گزشتہ دو سالوں سے سرکاری ایجنسیوں کے ذریعہ کی جا رہی ہے، کیا ایجنسیوں کو بھارتی ایئرٹیل معاملے کی بھی جانچ نہیں کرنی چاہیے؟ اسی طرح عآپ کے معاملے کی طرح کیا سچائی سامنے لانے کے لیے کاروباریوں اور لیڈروں کو گرفتار نہیں کیا جانا چاہیے، کیونکہ عآپ کے برعکس یہاں تو پیسے کا لین دین بالکل صاف ہے؟

یہ دلیل غلط ہے کہ عدالت عظمیٰ کے ذریعہ غیر آئینی قرار الیکٹورل بانڈ شفافیت کے لیے یا انتخاب کی فنڈنگ کے لیے لائے گئے تھے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پالیسی ساز ٹیلی مواصلات، فارماسیوٹیکل، بنیادی ڈھانچے وغیرہ میں کاروباروں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ ایسے سبھی معاملوں کو سرگرم طریقے سے آگے بڑھانے کی ضرورت ہے، کیونکہ ڈاٹا سے منی ٹریل کا انکشاف ہوتا ہے۔

 (مضمون نگار ارون کمار ’دی بلیک اکونومی اِن انڈیا‘ کے مصنف ہیں، بشکریہ: دی وائر ڈاٹ اِن)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔