اپنوں کے بیچ اجنبی: ایک کتاب جس سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے کوئی اپنا ہی اجنبی بن جاتا ہے
فرید لکھتے ہیں ’’2014 کے بعد لوگ اسے معمول کی بات نہیں سمجھتے، ان کے لیے مسلمان کا اپنشد پر کام کرنا خوش کن حیرانی سے کم نہیں ہے‘‘، اس دنیا میں شاید اسی لیے فرید کو کچھ الگ قسم کا سرٹیفکیٹ ملا ہوا ہے۔
نوجوان شاعر، تھیٹر آرٹسٹ اور فلموں و سیریلس کے کامیاب رائٹر فرید خاں کی کتاب ’اپنوں کے بیچ اجنبی‘ ایسے وقت میں منظر عام پر آئی ہے جب ملک میں اکثریت پسندی زوروں پر ہے اور اقلیتوں کو نشانے پر لینے کا سلسلہ سا چل پڑا ہے۔ کتاب ان حالات سے پیدا حالات کا نہ صرف بیان ہے بلکہ ایک مثبت مداخلت بھی ہے۔ یہاں مسلمانوں سے جڑے تمام سوالوں کے مدلل جواب ہیں تو ان کے اندر کی تنگ ذہنی پر حملہ بھی ہے۔ ممکن ہے اس چھوٹی سی دکھائی دینے والی بڑے فلک کی کتابوں کو مسلمانوں کا پیروکار سمجھ کر خارج کیا جائے، لیکن سچ یہی ہے کہ یہ ہمارے وقت کی حقیقت ہے۔
کوئی اپنوں کے درمیان اجنبی کب، کیوں اور کیسے ہو جاتا ہے، اسے پتہ ہی نہیں چلتا۔ گزشتہ دنوں میں کئی بار جب اپنے بچپن کے علاقوں میں جانے کا موقع ملا تو ایسے احساسات سامنے آئے۔ بہت کھل کر تو نہیں، لیکن پرانے لکھنؤ کی ان گلیوں کی تاثیر بتا رہی تھی کہ کچھ ہے جو پہلے سا نہیں ہے۔ گلیاں تو پرانی دہلی یا پٹنہ کی بھی ایسی ہی گواہی دے رہی ہیں۔ لیکن کچھ ایسا بھی ہے ان گلیوں میں جو پہلے جیسا بچائے رکھنا چاہتا ہے۔
چوک میں اچانک مل گئے بچپن کے دوست اشفاق نے اس دن جو کچھ بتایا اس سے لگا کہ کچھ نہیں، کچھ زیادہ ہی بدل گیا ہے۔
سوچا، کسی سے کچھ پوچھوں، پھر چھوڑ دیا کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دیں، نہیں ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ ابھی تو یہ محض شروعات ہے۔
کانپور میں بہت دن بعد فساد جیسا کچھ ہوا۔ کسی نے لکھا ’’کیا ضرورت تھی مسلمانوں کو اپنی بربادی کے صفحے پر خود سے کچھ لکھنے کی... ان کے سیٹ ایجنڈے پر خود کو درج کروانے کی... پھر یاد آئی وہ بات کہ ’ہم نے تو اب بولنا چھوڑ دیا ہے‘۔ وہ بات بھی یاد آئی کہ ’اب تو ہم اور زور سے، سنا کے بولتے ہیں، تاکہ کوئی یہ نہ کہہ دے کہ ارے یہ تو کچھ بولا ہی نہیں‘۔
یہ سب سوچتے ہوئے یاد آئیں وہ سطریں ’اب میں سنیما ہال میں زور زور سے قومی ترانہ گاتا ہوں تاکہ موب لنچنگ کے سارے اندیشے ختم کر دوں۔ حالانکہ مجھے قومی ترانہ پورا یاد ہے لیکن میں نے بدلے ہوئے حالات میں اس کا مظاہرہ دس گنا زیادہ بڑھا دیا ہے...۔‘
یہ سطریں اس مصنف کی ہیں جس کی پرورش اسی طرح، ویسے ہی ماحول میں ہوئی ہے جیسی کہ میری۔ وہ لکھتا ہے ’’کھجوربنہ میں دیوی استھان کے احاطہ میں کرکٹ کھیلتے ہوئے بڑے بھائیوں کی گیند جب کسی گھر میں چلی جاتی تو اس کو لانے کا کام میرا ہوتا۔ درگا پوجا میں بننے والی تمام مورتیوں کا پہلا دَرشن میں نے وہیں کیا۔ مورتیوں کے بننے کا پورا عمل میں نے وہاں دیکھا ہے، انھیں پوری طرح بنتے ہوئے دیکھا۔ ٹیکاری روڈ مندر میں نہ جانے کتنی بار اکھنڈ کیرتن سنا اور وہاں سے ہرے رام، ہرے کرشن گاتے اور اچھلتے کودتے گھر آیا۔ اس کا احاطہ بہت بڑا تھا۔ وقت وقت پر اس کے احاطہ میں رات کے وقت سنیما بھی دکھایا جاتا، جس میں ہمارے کنبہ اور آس پڑوس کے تمام کنبہ کے لوگ سنیما دیکھنے جاتے۔ مندر احاطہ میں ہی میں نے پہلی بار رام لیلا دیکھی تھی۔ وہیں سے دسہرے کی جھانکی نکلتی، جسے ہم سب اپنی چھتوں سے اور کبھی کبھی اس کی بھیڑ میں جا کر دیکھتے تھے۔ پرساد میں کوئی بھی مٹھائی ہو، ہم کھاتے ہی تھے۔ پانی تو ہم لوگ پورے شہر میں کہیں بھی پی سکتے تھے۔ سڑک کا نل ہو، مندر کا نل ہو، یا مسجد کا نل ہو۔ کسی کے گھر میں بھی۔ اس کو کبھی نشان زد کرنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔ یہ پانی سے بھرے وقت کی تاریخ ہے۔‘‘ مصنف آگے لکھتا ہے ’’یہ تمام یادیں اس وقت بہت کام آئیں جب میں نے خبر پڑھی کہ غازی آباد کے ایک مندر میں ایک بچے کو پانی پینے کے سبب پیٹا گیا۔‘‘ اور بھی بہت کچھ ہوا...۔
یہ سب فرید خاں کی اس کتاب کے حصے ہیں جو ابھی حال ہی میں منظر عام پر آئی ہے۔ کتاب کا نام ہے ’اپنوں کے بیچ اجنبی‘ (وام پرکاشن، دہلی)۔ کتاب کا پیش لفظ مشہور فلم اداکار نصیرالدین شاہ نے لکھا ہے۔
فرید پٹنہ سے تعلق رکھتے ہیں، حساس شاعر، تھیٹر آرٹسٹ اور مصنف ہیں۔ کچھ دن لکھنؤ میں بھی رہے ہیں۔ ابھی ابھی ان کی ایک طویل کہانی ’ابلا نہیں سبلا‘ بھی آئی ہے، جو اپنے مواد اور مضبوط بیانیہ کے سبب کافی شہرت میں رہی۔ فرید کی نظم ’گنگا مسجد‘ بار بار سننے یا پڑھنے کا من ہوتا ہے۔ فرید کئی سالوں سے ممبئی میں رہ کر فلموں اور سیریلس کے لیے لکھ رہے ہیں۔ کئی فلموں اور سیریلس کی اسکرپٹ ان کے حصے میں ہے جس میں ’اپنشد گنگا‘ بھی شامل ہے۔ حالانکہ یہ ان دنوں کی بات ہو چکی ہے۔
فرید لکھتے ہیں ’’2014 کے بعد لوگ اسے معمول کی بات نہیں سمجھتے، ان کے لیے ایک مسلمان کا اُپنشد پر کام کرنا خوش کن حیرانی سے کم نہیں ہے۔‘‘ اس دنیا میں شاید اسی لیے فرید کو کچھ الگ قسم کا سرٹیفکیٹ ملا ہوا ہے۔ ’اچھے مسلمان‘ کا سرٹیفکیٹ... لوگ کہتے ہیں ’’فرید ویسا مسلمان نہیں ہے، مسلمان بھی اچھے ہوتے ہیں۔‘‘ حالانکہ ایسے مثبت تبصروں میں بھی مجھے ایک طرح کی منفی آواز ہی سنائی دیتی ہے۔
فرید کی کتاب پڑھتے ہوئے ہمیں 1977 سے 1980 کے درمیان کی ایودھیا یاد آتی ہے، جو ہمارے لیے مسجد-مندر تنازعہ کے شروعاتی دن تھے۔ ان دنوں خاندانی اسباب سے کئی بار نہ صرف وہاں جانا ہوا، بلکہ لوگوں سے باتیں بھی ہوئی تھیں۔ وہاں کے لوگوں سے بات تو 1992 کے فوراً بعد اور اس کے بعد بھی کئی بار ہوئی، لیکن دن اور سال بھلے گزرے ہوں، باتیں کبھی نہیں بدلیں۔ باتوں سے کبھی نہیں لگا کہ ان کے من میں کہیں ہندو-مسلم یا مندر-مسجد کا کوئی فرق بھی ہو۔ کھڑاؤں اور رام نامی سے روزی کمانے والے شمیم یا پرساد بنانے والے رام سنیہی کی مانیں تو وہاں کا عام آدمی، مندر علاقے میں روزگار کرنے والوں میں آج بھی وہی جذبہ، وہی بات قائم ہے۔ وہ تب بھی آپس میں خوش تھے، وہ اب بھی آپس میں خوش رہنا چاہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ تب اور اب میں اتنا فرق آ چکا ہے کہ اب وہ چاہ کر بھی کئی بار اس طرح خاموش نہیں رہ پاتے ہیں۔ باہر سے آئے خیال ان کے درمیان گھر بنا چکے ہیں۔
فرید لکھتے ہیں ’’میرا اپنا تجربہ ہے کہ ریل گاڑی میں چلتے ہوئے اب فون آنے پر کوئی سلام نہیں کرتا (میں استثنا کی بات نہیں کر رہا)۔ دوسری طرف سے اگر کوئی سلام کر بھی دے تو اس کا جواب ریل گاڑی میں نہیں دیا جاتا۔ اسے ہیلو سے ہی کام چلانا ہوتا ہے۔ بیشتر بات چیت میں ہوں-ہاں سے ہی کام چلانا پڑتا ہے۔ ’ٹرین میں بیٹھ گئے‘ یا ’گاڑی چل پڑی ہے‘ جیسے ہی پورے جملے ہوتے ہیں۔ باقی ایسے آدھے ادھورے جملے مانو زمین میں گڑے کسی خزانے کے راز کی باتیں اشاروں میں ہو رہی ہوں۔‘‘ فرید کئی مثالیں پیش کرتے ہیں، جن میں ان کی بیوی کا تجربہ بھی شامل ہے۔
فرید نے اس کتاب میں مسلمانوں سے جڑے ہر اس سوال کا مدلل جواب دینے کی کوشش کی ہے، جن سے آج کا مسلمان روزانہ نبرد آزما ہو رہا ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جنھیں ہندو بھی یا تو واٹس ایپ نالج کے ذریعہ جانتا ہے، یا اگر جانتا بھی ہے تو ہوا دیکھ اس کے پچڑے میں نہیں پڑنا چاہتا۔ فرید نہ صرف مسلمانوں کے زیادہ بچے پیدا کرنے، تین طلاق، لو جہاد، کشمیر یا کہیں بھی دہشت گردی سے جوڑے جانے جیسے سوالوں سے ٹکراتے ہیں بلکہ قوم کے اندر کی فرقہ پرستی اور کند ذہنی پر برابر سے چوٹ کرتے ہیں۔ کہنا نہ ہوگا کہ فرید فرقہ پرستی اور مذہبیت کے فرق کو بہت صاف گوئی سے بتانے سے بھی باز نہیں آتے۔ لیکن یہ کئی بار انھیں پریشان بھی کرتا ہے، کیونکہ ’’اصل میں آج کی فرقہ واریت ایک ساتھ اتنے نشانے سادھتی ہے کہ جب تک آپ اس کا کردار طے کر کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، تب تک اس کا کردار بدل جاتا ہے۔‘‘
ممکن ہے فرید کی اس چھوٹی سی دکھائی دینے والی بڑے فلک کی کتاب کو مسلمانوں کا پیروکار سمجھ کر خارج کیا جائے، لیکن سچ یہی ہے کہ یہ ہمارے وقت کی حقیقت ہے۔ کتاب تو صرف ایک آئینہ ہے۔ اسے ہر کسی کو پڑھنا ہی چاہیے۔ انھیں بھی جو اس وقت کہیں دبا دبا سا محسوس کر رہے ہیں۔ انھیں بھی جو کچھ سوچتے ہیں۔ پڑھنا تو انھیں بھی ضرور چاہیے جو واٹس ایپ نالج کی دنیا کے آگے کچھ پڑھنا ہی نہیں چاہتے۔ دراصل یہ کسی ایک سماج کا سچ نہیں ہے، ہر اس سماج کی حقیقت ہے جو کہیں بھی کبھی بھی اقلیتی درجہ میں آ سکتا ہے۔ فی الحال فرید مایوس نہیں ہیں۔ کہتے ہیں ’’اس ملک کی روح میں دو ایسی چیزیں شامل ہیں جو مجھے پراعتماد کرتی ہیں۔ ایک ہے اس ملک کا آئین اور دوسرا اس ملک کا اکثریتی طبقہ یعنی ہندو مذہب۔ دنیا کا ایسا اول مذہب جو اس قدر سیکولر ہے۔ یہ ہندو مذہب ہی دراصل اس فرقہ وارانہ سیاست کے لیے چیلنج ہے۔‘‘
مایوس ہم بھی نہیں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ پڑوس میں رہنے والا کوئی مسلم کنبہ اگلی عید یا بقرعید پر ہمارے گھر کچھ بھیجنے سے پہلے کچھ نیا نہیں سوچے گا۔ آخر عید و بقرعید کی سیوئیاں ہوں یا حصہ، اسے بھیجنے کے پہلے ہمارے بچپن کی پڑوسن حمیرا آپا بھی تو کبھی کچھ نہیں سوچتی تھیں۔ نہ ہمارے یہاں سے ہولی-دیوالی کے پکوان پر ان کا حق ہم سے کچھ بھی کم ہوتا تھا۔ فرید کے تجربات کی اس کتاب کو ہم اسی امید سے دیکھ رہے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔