کیا اونٹوں کی اینٹی باڈیز کورونا کے خلاف کارگر ثابت ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر ورنرے نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ان کے اونٹوں پر تحقیقی مطالعے سے کووِڈ-19 کے پھیلنے اور اس کے علاج سے متعلق مزید سوالوں کے جواب ملیں گے اور اس سے مہلک وائرس کے علاج میں بھی مدد ملے گی۔
متحدہ عرب امارات میں سائنس دانوں نے کووِڈ-19 سے متاثرہ انسانوں کے علاج کی غرض سے اونٹوں کی اینٹی باڈیز کو بروئے کار لانے کے لیے ایک تحقیقی مطالعہ شروع کیا ہے۔ اس مطالعے میں دبئی کی سنٹرل ویٹرینری ریسرچ لیبارٹری کے سربراہ ڈاکٹر الریچ ورنرے اور ان کی ٹیم نے کووِڈ-19 وائرس کے مردہ سیمپل اونٹوں کے اجسام میں داخل کیے ہیں۔ اس تجربے کا مقصد یہ دیکھنا ہے کہ کیا اس سے صحرائی جانور میں اینٹی باڈیز پیدا ہوتے ہیں تاکہ انھیں انسانوں کے علاج میں استعمال کیا جاسکے۔
اس سے پہلے اونٹ مڈل ایسٹ ریسپائریٹری سینڈروم (مرس) کا شکار ہوچکے ہیں۔ کورونا وائرس سے پہلے مشرق اوسط میں یہ وائرس پھیلا تھا۔ اس سے نظام تنفس متاثرہ ہوتا تھا اور اس سے متعلق بیماریاں پھیلی تھیں۔ اس کے علاوہ نظام انہضام کے بگاڑ اور گردے ناکارہ ہونے سے لوگوں کی اموات ہوئی تھیں۔تاہم اب تک کے مطالعات کے مطابق اونٹ نئے کورونا وائرس سے محفوظ ہیں۔
ڈاکٹر الریچ ورنرے اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ ’’اونٹوں میں وائرس کو قبول کرنے والا خلیہ نہیں، جبکہ انسانوں اور دوسرے جانوروں میں یہ موجود ہے اور اسی سے گزر کر وائرس ان کے نظام تنفس میں داخل ہوتا ہے۔‘‘
انھوں نے العربیہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’’مرس-کووِڈ اونٹوں میں داخل ہوسکتا ہے لیکن اس سے وہ بیمار نہیں پڑتے جبکہ کووِڈ-19 اونٹوں کے نظام تنفس کے خلیوں میں داخل ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ ایک بڑا دلچسپ معاملہ ہے کہ انسانوں کے علاوہ آبی نیولے اور چھوٹی بڑی بلیاں کووِڈ-19 کا شکار ہوسکتی ہیں۔ان میں شیر اور چیتے بھی شامل ہیں۔ یہ تمام جانور دوسرے انسانوں اور جانوروں میں کووِڈ-19 کی منتقلی کا سبب بن سکتے ہیں۔‘‘
اب تک کووِڈ-19 بعض جانوروں میں پایا گیا ہے۔ سان ڈیاگو کے چڑیا گھر میں گوریلے بھی اس وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ سرے، برطانیہ میں ایک بلی، برونکس، امریکا کے ایک چڑیا گھر کے ایک شیر میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان کے علاوہ بارسلونا کے چڑیا گھر کے چار شیروں اور کنٹیکی کے چڑیا گھر میں ایک برفانی چیتے کا کووِڈ-19 کا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ تاہم سائنس دانوں اور عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ جانوروں سے انسانوں میں کووِڈ-19 منتقل ہونے کا خطرہ کم ہے۔
ڈاکٹر ورنرے نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ’’ان کے اونٹوں پر تحقیقی مطالعے سے کووِڈ-19 کے پھیلنے اور اس کے علاج سے متعلق مزید سوالوں کے جواب ملیں گے اور اس سے مہلک وائرس کے علاج میں بھی مدد ملے گی کیونکہ اس تجربے کی روشنی میں ایک دن اونٹوں کی اینٹی باڈیز (خون) کو کووِڈ-19 سے متاثرہ انسانوں کے علاج کے لیے استعمال میں لایا جاسکے گا۔‘‘
(بشکریہ العربیہ ڈاٹ نیٹ)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔