آسام واقع ڈٹنشن سنٹر سے 20 افراد کو ملی آزادی، جمعیۃ علماء ہند کی محنت رنگ لائی

رہا ہونے والے سبھی لوگ 2 برس سے زائد عرصہ سے حراستی مرکزمیں مقید تھے۔ انہیں گوہاٹی ہائی کورٹ کے حکم پر آزادی ملی۔ آزادی کا پروانہ حاصل کرنے والوں میں ہندو بھی شامل ہیں۔

مولانا ارشد مدنی
مولانا ارشد مدنی
user

یو این آئی

نئی دہلی: جمعیۃعلماء ہند کی قانونی مدد سے آسام کے حراستی مرکز سے 20 افراد ضمانت پر رہا ہوگئے یہ تمام لوگ دو برس سے زائد عرصہ سے حراستی مرکزمیں مقید تھے انہیں گوہاٹی ہائی کورٹ کے حکم پر رہا کیا گیا ہے۔ رہا ہونے والوں میں ہندو بھی شامل ہیں۔ یہ بات جمعیۃ علمائے ہند کی پریس ریلیز میں کہی گئی ہے۔

جاری پریس ریلیز کے مطابق اس میں سپریم کورٹ کے دو اہم فیصلوں کا کلیدی رول رہا ہے۔ واضح رہے کہ جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے داخل ایک عرضی پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے 10جنوری 2019کو اپنا فیصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حراستی کیمپوں میں جو لوگ تین سال کی مدت گزار چکے ہیں انہیں دو ہندوستانی شہریوں کی ضمانت پر دیگر شرائط کے ساتھ رہا کیا جانا چاہیے اسی طرح گزشتہ 13 اپریل 2020 کو ایک اور مقدمہ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے فیصلہ صادر کیا تھا کہ جو لوگ حراستی کیمپوں میں دوسال کی مدت گزار چکے ہیں انہیں بھی دوعدد ہندوستانی شہریوں کی ضمانت پر شرائط کے ساتھ رہا کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے انہیں فیصلوں کی روشنی میں گوہاٹی ہائی کورٹ نے ایسے تمام افراد کی رہائی کا فرمان جاری کیا ہے۔


جاری ریلیز کے مطابق رہا ہونے والے وہ لوگ ہیں جنہیں فارن ٹریبونل بھی غیر ملکی قراردے چکا ہے، اگرچہ سپریم کورٹ کی رولنگ بہت صاف ہے مگر حراستی کیمپوں میں جانوروں کی طرح ٹھونس کر رکھے گئے بے بس اور نادار لوگوں کے لئے ضابطوں کی تکمیل آسان کام نہیں ہے، اس موقع پر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی کی ہدایت پر آسام صوبائی جمعیۃعلماء کے صدرمولانا مشتاق احمد عنفر کی رہنمائی میں جمعیۃعلماء ہند کی ایک ٹیم نے اپنی مہم شروع کی اور حراستی کیمپوں میں دو یا تین برس کی مدت پوری کرچکے لوگوں کو قانونی امداد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جمعیۃعلماء ہند آسام شہریت معاملہ کو لے کر روز اول سے کامیاب قانونی لڑائی لڑ رہی ہے اور یہ قانونی لڑائی اس نے بلا لحاظ مذہب وملت لڑی ہے۔

ریلیز میں کہا گیا ہے کہ اس کی طویل قانونی جدوجہد کے نتیجہ میں این آرسی کے عمل کے دوران آسام کے شہریوں کو بہت سی اہم ریاعتیں حاصل ہوئی جن کی وجہ سے انہیں اپنی شہریت ثابت کرنے میں کم دقت کا سامنا کرنا پڑا، جمعیۃعلماء ہند آسام میں انسانیت کی بنیاد پر لوگوں کو اخلاقی اور قانونی امداد فراہم کر رہی ہے تازہ معاملہ اس کا بین ثبوت ہے ان میں رہا ہونے والوں میں نصف سے زائد تعداد غیرمسلموں کی ہے یہ وہ مجبور اور نادارلوگ ہیں جو اپنی قانونی لڑائی نہیں لڑسکتے تھے۔


جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں حراستی کیمپوں سے مجبور اور بے بس افراد کی رہائی کو ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان فیصلے سے قانون میں ایک بار پھر لوگوں کا اعتماد مضبوط ہوا ہے اور اس فیصلے سے اب ان دوسرے لوگوں کی رہائی کا راستہ بھی آسان ہو جائے گا جو ٹربیونل کے ذریعہ غیر ملکی قراردیئے جانے کے بعد سے حراستی کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور اپنی قید کی دو یا تین برس کی مدت بھی گزار لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آسام شہریت معاملہ کو لے کر کچھ لوگوں نے اسے فرقہ وارانہ بنانے کی کوشش کی لیکن جمعیۃعلماء ہند نے روز اول سے اسے ایک انسانی معاملہ کے طور پر لیا ہے یہی وجہ ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی مسلسل قانونی جدوجہد سے جو رعایتیں حاصل ہوئیں اس کا فائدہ ریاست کے ہر شہری کو ہوا ہے اور اب تو دوسرے لوگ بھی اس سچائی کا اعتراف کرنے پر مجبورہیں۔ مولانا نے کہا کہ جمعیۃعلماء نے وقت وقت پر قانون کی لڑائی نہ لڑئی ہوتی تو ریاست کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد غیر ملکی قرار دیدی جاتی۔

مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارا ابتدا سے یہ موقف رہا ہے کہ جو لوگ واقعی غیر ملکی ثابت ہوں اسے ریاست سے نکالا جانا چاہیے اور ایسا مذہب کی بنیاد پر نہیں ہونا چاہیے دوسرے جو حقیقی طورپر ہندوستانی ہیں انہیں شہریت کا حق بہر صورت ملنا چاہیے ایسے لوگوں کو اگر دستاویزات کی عدم موجودگی کی وجہ سے غیر ملکی قرار دے دیا گیا ہے تو انہیں نظراندازنہیں کیا جاسکتا، ایسے لوگوں کے ساتھ انسانی ہمدردی کا اظہار ہونا چاہیے اور انہیں شہریت ثابت کرنے کے لئے مزید مواقع ملنے چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جمعیۃعلماء ہند سب کو انسان کی حیثیت سے دیکھتی ہے اس نے انسانوں میں مذہب کی بنیاد پر کبھی کوئی تفریق نہیں کی تازہ معاملہ بھی اس کا زندہ ثبوت ہے۔


انہوں نے آخر میں کہا کہ جمعیۃ علماء ہند آئندہ بھی ایسے لوگوں کی مدد کے لئے تیار رہے گی جو ٹربیونل کے ذریعہ غیر ملکی قرار دیئے جانے کے بعد پچھلے دو یا تین برس سے حراستی کیمپوں میں جانور سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں، مگر مالی پریشانی کی وجہ سے وہ اپنی رہائی کے لئے وکلاء سے رجوع نہیں کرسکتے ایسے لوگوں کی جمعیۃ علماء ہند ہر طرح سے مدد کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے وکلاء کا پینل حراستی کیمپوں کا دورہ کر نہیں پا رہا ہے اور نہ ہی لوگ اس پینل سے اپنے طورپر رابطہ کر پا رہے ہیں لیکن جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہوگا تمام حراستی کیمپوں کا دورہ کرکے وکلاء کا پینل اس سلسلہ میں ایک رپورٹ تیار کرکے ایسے تمام لوگوں کی ضمانت پر رہائی کی کوشش کرے گا۔


قابل ذکر ہے کہ ان سب کا تعلق آسام کے ضلع با نکسہ اورہوجائی سے ہے اور ان رہا ہونے والوں میں غیر مسلم بھی شامل ہیں جن کے نام، چاند موہن منڈل، ستیاسادھوسترادھر، نراین داس گوری ساگر، سوشل داس گوری ساگر، آماری داس گوری ساگر، مقصدعلی الینگ ماری، قدم علی گباردھنا، اناتی بیگم الینگ ماری، نورعالم ڈبکا، عبدلملک ڈبکا، عبدالمالک ڈبکا، چندارانی پال ڈبکا، یایسکاربیگم ڈبکا، کفیل الدین ڈبکا، عبدالحنان مورازار، عبدالخالق ادالی، واحدہ بیگم لنکا، کرتیش چندر، فلبان جمنامکھ، بسنتی جمنامکھ ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 29 Apr 2020, 5:40 PM