خواتین پر فیشن ایبل دکھنے کا دباؤ بڑھ رہا ہے
یہ برانڈز ایک مذہبی پہچان رکھنے والے کپڑے کو دکھانے میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں۔
کچھ حقوق نسواں کے کارکنوں کا حجاب کے لیے نظریہ مختلف ہے خاص طور پر جہاں یہ لازم ہے۔ صحافی اور ایرانی کارکن ماسیح علی نجاد نے فیس بک پر ’میری مخفی آزادی‘ کے نام سے مہم کا آغاز کیا جس میں کچھ ایرانی خواتین کو ریاست کے حکم کے خلاف حجاب اتارتے ہوئے دکھایا گیا۔
ان کا کہنا تھا ’میرا خیال ہے کہ مغربی میڈیا حجاب کے مسئلے کو عام بات بنانا چاہتا ہے۔ وہ مغرب میں مسلمان اقلیت کے بارے میں بات کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ شاید بھول رہے ہیں کہ مسلمان ممالک میں لاکھوں خواتین ہیں جنھیں یہ حجاب جبراً لینا پڑتا ہے۔
تو یہ برانڈز ایک مذہبی پہچان رکھنے والے کپڑے کو دکھانے میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں۔
شہلینا جان محمد ایک ایڈورٹرائزنگ کمنی میں نائب صدر ہیں اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی کمپنیوں کی مدد کرتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’فی الوقت مسلمان صارفین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ان کا زندگی گزارنے سے متعلق اپنا ایک نظریہ ہے اور یہ بھی کسی دوسرے نظریے کی طرح دکھائی دینا چاہیے۔‘
’اور یہ معاملہ تجارت اور کاروبار کا ہے:۔‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔