کڑھائی: پوشاک کی دلکشی کا راز
وہ لوگ جو جدید ملبوسات اور فیشن کے دلدادہ ہیں اور ہر نئے فیشن سے باخبر رہنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ اس وقت فیشن میں کیا ہے بازار میں ہر طرح کی مانگ بہت زیادہ ہے۔
آج کل چونکہ شادی بیاہ کا سیزن چل رہا ہے، لہٰذا مختلف ڈیزائنروں کی جانب سے عروسی ملبوسات کی خوبصورت اور جدید کپڑے متعارف کروائے جا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ شادی بیاہ اور تہواروں کے لیے لگژری کلیشن بھی تقریبات کو چار چاند لگا رہے ہیں۔ وہ لوگ جو جدید ملبوسات اور فیشن کے دلدادہ ہیں اور ہر نئے فیشن سے باخبر رہنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے کہ اس وقت فیشن میں کیا ہے بازار میں اس طرح کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ یہ کلیکشن عموماً شیفون، نیٹ، پیور سلک، ویلوٹ وغیرہ پر مشتمل ہوتی ہے۔ جسے امبیلش منٹ اور ایمبرائڈری مزید منفرد بنا دیتی ہے۔
ڈیجیٹل پرنٹس ملبوسات کو مزید جاذب نظر بنا دیتے ہیں، گوٹہ، زردوزی اور آری کا کام ملبوسات کو سجا دیتے ہیں۔ اگر ورائٹی کی بات کی جائے تو لیلن، شارٹ کرتا، کاٹن، نیٹ، ڈیجیٹل پرنٹڈ پشواز، ٹشو جیکٹ، ساڑی، لانگ شرٹ سائیڈ اوپن، کرنڈی کرتا، شارٹ فرنٹ اوپن جیکٹ، ویلوٹ شرٹ، بلاک پرنٹڈ لمبا کرتا اور دیگر اسٹائل بازاروں کی رونق بنے ہوئے ہیں۔ جن سے موسم کا رو مان بھی جھلکتا ہے اور ڈیزائنر کا ذوق اور محنت بھی ایمبرائڈری کے ساتھ ڈیزائنرز فلورل پرنٹس پر بھی توجہ کرتے نظر آتے ہیں۔
کپڑوں کو سجانے کے لئے کڑھائی کی جاتی ہے۔ پہلے کڑھائی، سلائی کا کام عورتیں گھروں میں خالی وقت میں کرتی تھیں ان کو فروخت نہیں کیا جاتا تھا۔ بلکہ گھر کے افراد کے استعمال کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ لیکن اب کڑھائی، سلائی ایک مکمل پیشہ کی شکل اختیار کر چکی ہے اور آج بڑے بڑے برانڈ اس میدان میں آچکے ہیں جو نہ صرف اچھے ڈیزائنر کپڑوں کی کڑھائی کراتے ہیں بلکہ یہ بہت مہنگے ہوتے ہیں۔
آج بازار میں ایسے کپڑوں کی مانگ بھی بڑھ گئی ہے۔ سوٹ سے لے کر جینس تک پر ایمبرائڈری کی جاتی ہے یعنی پہلے صرف پوشاکوں پر کی جاتی تھی لیکن اب جدید فیشن کے کپڑوں پر بھی اپنے اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ایمبراڈری کامقصد صرف کپڑوں کو دلکش بنانا نہیں تھا بلکہ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ اس سے کپڑے مضبوط ہو جاتے تھے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے بلکہ یہ دن رات کی محنت کا نتیجہ ہے۔ ویسے تو آج کی مصروف ترین زندگی میں مشین کے ذریعہ کڑھائی کا کام ہونے لگا ہے لیکن اس کی خوبصورتی ہاتھ کے ذریعہ کی جانے والی کڑھائی کی خوبصورتی سے مات کھا جاتی ہے۔ کام ہی کی تو قیمت ہوا کرتی ہے۔ ایمبرائڈری کی ہوئی ساڑی، لہنگے یا سوٹ 2000 سے لے کرہزاروں اور لاکھوں تک ہوا کرتے ہیں۔ اس میں خاص بات ڈیزائننگ کی ہوتی ہے۔ جتنی خوبصورت ڈیزائن ہوگی اتنی ہی کپڑے کی قیمت زیادہ ہوگی۔ ایمبرا ئڈری کی اہمیت نہ تو گزرے زمانے میں کم ہوئی تھی، نہ آج اور نہ آئندہ ہوگی۔ ذیل میں مختلف اقسام کی ایمبرائڈریوں کے بارے میں ذکر کیا جا رہا ہے۔
زردوزی ایمبرائڈری:
اس کو شاندار ایمبرائڈری کا نام دیا جا سکتا ہے۔ زردوزی قدیم ایرانی ایمبرائڈری ہے۔ مغل بادشاہ اکبر کے دور حکومت میں زردوزی کو کافی اہمیت حاصل تھی۔ پہلے سلک، برو کیڈ اور ویلویٹ جیسے فیبرک پر سونے، چاندی، موتی اور کئی طرح کے بیش قیمت جواہرات سے کڑھائی کی جاتی تھی۔ اب اس کی جگہ ریشمی دھاگوں، سونے چاندی کی پولش والے کاپر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تِلّے، دبکے، شیشوں اور ستاروں سے زردوزی کا کام خاص طور پر سِلک، بروکیڈ اور ویلویٹ پر ہی کیا جاتا ہے۔
چکن کاری کی مقبولیت:
ریاست اودھ کی دارالحکومت لکھنئو چکن کے کاموں کے لئے مشہور ہے۔ اس کی شروعات جہانگیر کی خوبصورت بیگم نور جہاں کے زمانے سے تسلیم کی جاتی ہے۔ انہیں خود بھی کڑھائی میں اچھی مہارت حاصل تھی۔ یہ کڑھائی بھڑکیلی نہ ہو کر سادی ہوا کرتی ہیں۔ چکن کاری میں سفید دھاگوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چکن کاری کا کام پہلے ململ کے کپڑے پر کیا جاتا تھا۔ لیکن اب جارجیٹ، شفان اور کئی طرح کے فیبرک استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ اس میں پھول، پتیوں اور لتاؤں کے موٹف بنائے جاتے ہیں۔ اس میں شیڈو ورک بھی کیا جاتا ہے۔ اس میں کئی طرح کی اسٹچ اور کمبینیشن کا ایک ساتھ استعمال کیا ہوتا ہے۔
مِرر ایمبرائڈری:
اس کا زیادہ چلن گجرات میں ہے، یہاں کے ڈانڈیا راس، کھمر ڈھوکلا یا پھر مِرر(Miror) ایمبرائڈری سبھی کو اپنی جگہ الگ الگ مقام حاصل ہے۔ گجرات کی شیشے کی کڑھائی میں عجیب طرح کی کشش پائی جاتی ہے۔ موٹف بنانے کے لئے کئی طرح کی اسٹچ کا استعمال کیا جاتا ہے اور اس کے بیچ بیچ میں شیشوں کو لگایا جاتا ہے۔ جو مختلف شکل اور رنگ کے ہوا کرتے ہیں۔
کاتھی ایمبرائڈری:
اس ایمبرائڈری کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔ اس میں بیس کے طور پر سِلک اور ساٹن کے کپڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کپڑوں کا رنگ کالا ہوتا ہے۔ کاٹن کے کپڑوں سے کئی طرح کے ماٹف بنائے جاتے ہیں۔ جیسے کہ ہاتھی، پھول، اس میں شیشے کا استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن شیشے لگانے کے کچھ اہم طریقے ہوتے ہیں جیسا کہ پھولوں کی بیچو بیچ اور پرندے کی آنکھ کی جگہ۔
کشمیری ایمبرائڈری کشیدہ:
کشیدہ کشمیری کڑھائی کا نام ہے، اس کی شہرت نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ہے۔ کشمیر کی دلکش وادیوں کی جھلک ایم برایڈری میں ملتی ہے۔ اس میں بنائے جانے والے موٹف قدرت کی دلکش مناظر کی ترجمانی کرتے ہیں۔ جیسے چنار کے پتے، پھول، بیل، لتائیں۔ کشیدہ کڑھائی خاص طور پر اونی یا سوتی کپڑوں پر کی جاتی ہے۔ اس میں رنگوں کا استعمال بھی سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے۔ سفید رنگ، کریم یا پیسٹل کلرز، اس میں ایک وقت میں ایک یا دو اسٹچ سے ہی پوری کڑھائی کی جاتی ہے۔
سوجنی:
سوجنی کڑھائی بھی کشمیری کڑھائی کی ایک قسم ہے اس میں کپڑے کے دونوں طرف ایک جیسی ہی کڑھائی ہوتی ہے۔ کوئی الٹی یا سیدھی سائڈ نہیں ہوتی۔
پنجابی ایمبرائڈری پھلکاری :
پھلکاری کڑھائی کی اہمیت لوک سنسکرتی سے وابستہ ہے۔ پہلے یہ صرف اوڑھنی یا دو پٹے پر ہی کی جاتی تھی۔ اس میں چمک دار رنگ کے دھاگوں سے کئی طرح کے موٹف بنائے جاتے ہیں۔ پھلکاری کا کام خاص طور پر کھادی کپڑوں پر کیا جاتا ہے۔ اس میں آڑی ترچھی سلائی کا استعمال کرکے شیڈنگ بنائی جاتی ہے۔
وِدری ایمبرائڈری :
یہ کڑھائی حیدر آباد کے وِدرعلاقے میں کی جاتی ہے۔ اس میں کالے رنگ کے کپڑے پر سِلور رنگ کے دھاگوں سے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔