ماں تیری ہمت کو سلام
کشمیر کی 80 سالہ ایک ایسی ماں کی کہانی جو تمام طرح کی دشواریوں کا سامنے کرتے ہوئے بھی اپنے نابینا بیٹے اور بیٹی کا پیٹ پال رہی ہے۔
ہرماں کی یہ ہی تمنا ہوتی ہے کہ اس کی اولاد بڑھاپے میں اسکا سہاراہ بنے اور بھلے ہی خدمت نہ کرے لیکن اس کے جنازے کوکم از کم کاندھا تو دے۔ اننت ناگ کے براکپورہ کی فضی بیگم کی تو جیسے یہ دونوں تمنائیں بھی تمنا ہے ہی رہ گئیں۔ اسی (80) سالہ فضی بیگم کی قسمت ہی کچھ ایسی ہے کہ زندگی اسے ہر قدم پر ایک نئی ذمہ داری سونپ دیتی ہے۔ فضی بیگم کے یہاں دو اولادیں پیدا ہوئیں ایک بیٹا اور دوسری بیٹی ۔
بیٹا محمد شابان ماں کے پیٹ سے ہی نابینا پیدا ہوا ۔ فضی نے اسے خدا کی رضا جاں کر اپنے دل پر پتھر رکھ لیا اور صبر کا دامن تھام لیا ۔ انہیں یہ امید تھی کہ دوسری اولاد ضرور توانگر پیدا ہوگی لیکن فضی بیگم کی آزمائشیں کا سلسلہ ابھی تھمنے والا کہا تھا اور محمد شابان کی پیدائش کے دوسال بعد ایک بیٹی سکینہ پیدا ہوئی اور وہ بھی نابیناہ تھی۔
اب کی بار تو فضی کی کمر ہی ٹوٹ گی بیٹی کی پیدائش کے دوسال بعد ہی فضی کے شوہر کا بھی ایک مہلک بیماری میں انتقال ہو گیا۔ اب اپنی اور اپنے دو نابیناہ بچوں کی کفالت کی ذمہ داری فضی کے سر پر آ گئی۔ اسی سال کی عمر پوری کر چکیں فضی اب مسکرانہ ہی بھول چکی ہیں، انہیں تو یہ تاک یاد نہیں ہوگا کہ وہ آخری دفعہ کب مسکرائی تھیں۔
فضی کے افسر داہ چہرے پر ہر وقت یہ ہی پرشانی رہتی ہے کہ اسکے مرنے کے بعد اسکے بچوں کا کیا ہوگا ! خود بھی سہارے کی محتاج ہونے کے باوجود انہیں دو نابیناہ بچوں کا سہارہ بنا پڑ رہا ہے۔ کچے مکان کے دوکمروں میں رہنے والا یہ کنبہ زمانے کے نشیب و فراز سے بے خبر بس اپنی دنیا کی الجھنوں کو سلجھانے میں ہی لگا رہتا ہے۔
فضی کا 35 سالہ بیٹا محمد شابان اپنی ماں کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے لیکن اپنی کمزوری کے سبب کچھ کرنے سے قاصر ہے۔ فضی کی 33 سالہ بیٹی سکینہ بھی نابیناہ ہونے کے سبب اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر باہر نکلتی ہے ۔ اتنے مشکل حالات کے باوجود فضی اپنے جگر کے پاروں کی آنکھیں بن کر انہیں خوش رکھنے کی کوشیش کر رہی ہیں۔ گھر میں کوئی آمدنی کا ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے فضی اپنے لئے ادوایات بھی نہیں خرید پاتیں ۔ اپنے بچوں کو دو وقت کی روٹی تو وہ کھلا رہی ہیں لیکن بعض اوقات وہ خود بھوکی رہ جاتی ہیں۔
ایسے غریب خستہ حال کنبوں کے لئے اگر چہ حکومت نے باضابطہ محکمہ قائم کیا ہوا ہے لیکن فضی کی کسم پر سی ان کو بھی نظر نہیں آتی۔ محکمہ سماجی بہبود کی جانب سے نہ تو محمد شابان اور سکنہ کو معذوری کا وظیفہ دیا جاتا ہے اور نا ہی فضی کو اولڈ ایج کے زمرے میں رکھ کر پنشن دی جاتی ہے۔
قومی آواز نے بزروار خاتون فضی سے بات چیت کی تو انہوں نے کہاکہ حکومت کی جانب سے ابھی تک انہیں کسی قسم کی کوئی امداد نہیں فراہم کی گئی ہے۔ وہ کہتی ہیں، ’’ میں نہ جانے کتنی مرتبہ حکومت سے امداد فراہم کرنے کی درخواست کر چکی ہوں۔ غیر سرکاری اداروں سے بھی میں نے امداد مانگی لیکن نہیں ہوا۔ ‘‘
فضی بیگم کہتی ہیں کہ رمضان کے مہینے میں کچھ لوگ ضرور ان کی مدد کرتے ہیں لیکن باقی سال اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے انہیں اس عمر میں بھی لوگوں کے گھروں میں جاکر کام کرنا پڑتا ہے ۔
لوگوں کے گھروں میں صفائی اور برتن مانجنے کا کام کر کے اپنے دو نابیناہ بچوں کو کھلانے اور پالنے والی ماں بس اس بات سے پریشان ہے کہ اسکے بعد اس کے بچوں کا کیا ہوگا ۔
نمناک آنکھوں کے ساتھ فضی بیگم نے کہا، ’’میں سکوں کے ساتھ مر بھی نہیں سکتی کیوں کہ مجھے ہر وقت صرف اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر رہتی ہے ۔میں اگر ایسے ہی مر گئی تو میری روح کو سکون نہیں ملے گا۔ ‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 May 2018, 6:01 PM