ویڈیو: شاہین باغ سے سنگھو بارڈر تک، مودی حکومت کے خلاف بلند ہوتی احتجاج کی آواز

سنگھو بارڈر کا مظاہرہ شاہین باغ سے کئی گنا زیادہ رقبہ میں پھیلا ہوا ہے اور پوری جگہ کو دیکھنے کے لئے کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے

user

سید خرم رضا

کورونا وبا کے پھیلنے سے پہلے شاہین باغ کے مظاہرہ کی رپورٹنگ کرنے کے لئے شاہین باغ گیا تھا اور کل سنگھو بارڈر پر جانے کا موقع ملا جہاں کسان نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ کوئی لاکھ کہے کہ کسانوں کے اس مظاہرہ میں بھی وہی لوگ ہیں یا پیچھے سے ان کا ہی ذہن کام کر رہا ہے جو شاہین باغ کے مظاہرہ کے پیچھے تھے، لیکن دونوں مظاہروں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہاں مگر ایک یکسانیت ضرور ہے کہ دونوں مظاہرے مرکزی حکومت کے دو الگ الگ قوانین کے خلاف ہیں۔

بہرحال سنگھو بارڈر پر جا کر ایک بات کا تو اندازہ ہوا کہ یہاں پرمظاہرین کی بڑی تعداد میں سے زیادہ تر کا تعلق ہریانہ اور پنجاب سے ہے۔ شاہین باغ اور سنگھو بارڈر پر مظاہرین کا جوش برابر ہے بس فرق یہ ہے کہ شاہین باغ میں چونکہ جامعہ کے ہنگامہ کے بعد مظاہرہ شروع ہوا تھا اس لئے وہاں تعلیم کا تڑکا لگا ہوا تھا، جہاں ہر جانب تعلیم کا رنگ کسی نہ کسی شکل میں نظر آ رہا تھا۔ سنگھو بارڈر پر چونکہ کسان احتجاج کر رہے جن کو ’ان داتا‘ کہا جاتا ہے اور وہ بھی ملک کے اس خاص خطے سے تعلق رکھتے ہیں جہاں کی زمینیں زرخیز ہیں اور وہاں کا کسان خوشحال ہے اس لئے یہاں خدمت کے جذبہ اور کھانے، پینے اور ادویات کی افراط صاف نظر آتی ہے۔


سنگھو بارڈر پر شاہین باغ کی طرح الگ الگ سے لائبریری نہیں دکھے گی، کوئی بڑا سا انڈیا گیٹ نہیں دکھے گا، کہیں پر کوئی بچوں کو پڑھاتا ہوا دکھائی نہیں دے گا اور نہ ہی کہیں قومی ترانوں کی گونج نظر آئے گی، لیکن یہاں بڑی تعداد میں طبی عملہ خدمت کرتا نظر آئے گا، ہر پچاس میٹر پر ایک مفت ادویات فراہم کرنے والا اسٹال نظر آ جائے گا۔ ادویات کے ان اسٹالس کے بیچ مختلف تنظیموں کے ذریعہ مفت کھانے کا انتظام نظرآجائے گا۔ کہیں مونگ پھلی تقسیم ہو رہی ہوں گی، تو کہیں دیسی گھی کے بنے لڈو، تو کہیں پکوڑے اور کہیں بریڈ پکوڑے۔ پیزا کے لئے جہاں لمبی لائن لگی ہوئی نظر آ جائے گی وہیں سردیوں کے لئے ضروری کپڑے، کمبل اور لحاف بھی تقسیم ہوتے نظر آجائیں گے۔

سنگھو بارڈر کا مظاہرہ شاہین باغ سے کئی گنا زیادہ رقبہ میں پھیلا ہوا ہے اور پوری جگہ کو دیکھنے کے لئے کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑتا ہے۔ کسان جہاں ٹرکوں، ٹیمپو، ٹرالی، کیمپوں اور جدید ٹینٹوں میں آرام کرتے نظرآ ئیں گے وہیں بڑی تعداد میں مرکزی اسٹیج کے سامنے تقاریر سنتے نظر آئیں گے اور پورے مظاہرہ گاہ میں حکومت کے خلاف اور کسان مزدور اتحاد کے نعرے لگاتے نظر آئیں گے۔


مظاہرہ میں ہر عمر اور ہر طبقہ کے لوگ سنگھو بارڈر پر نظر آئیں گے جو مرکزی حکومت اور وزیر اعظم کے خلاف اپنے جذبات کے اظہار میں کوئی کنجوسی کرتے نظر نہیں آتے، بلکہ یوں کہیے کہ وہ کسی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیتے نظر آئیں گے اور کھل کر اپنے جذبات کا اظہار کرتے نظر آئیں گے۔ یہاں پر جہاں جھریاں پڑے غریب بزرگ کسان نظر آئیں گے وہیں بے انتہا خوشحال کسان بھی بڑی تعداد میں نظر آئیں گے جن کی کھڑی مہنگی کاریں اپنے آپ میں خود بولتی ہیں۔ یہاں جگہ جگہ گھوڑے اور ان کے اصطبل نظر آ جائیں گے جن کا شاہین باغ میں تصور ہی نہیں تھا۔ سکھ کسان اپنے گھوڑوں پر یہاں آئے ہوئے ہیں۔

سنگھو بارڈر پر احتجاج کر رہے کسانوں نے کہیں وزیر داخلہ امت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے پتلہ بنائے ہوئے ہیں تو کہیں ایک کسان بیڑیاں پہنے کھڑا ہے تو کہیں نوجوان لڑکے حکومت کے خلاف نعرے بازی کر رہے ہیں اور گانے گا رہے ہیں۔ ان نوجونوں کو سننے کے لئے خوب بھیڑ جمع ہو جاتی ہے۔ اتنی بھیڑ میں صفائی کا اہتمام کرنے والے کسانوں کو اپنے کام میں دشواری ضرور ہوتی ہے لیکن وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں۔ کہیں کنگنا رنوت کے خلاف پوسٹر نظر آتے ہیں توکہیں دشینت چوٹالہ کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ ’گمشدہ کی تلاش‘۔


شاہین باغ اور سنگھو بارڈر کے مظاہروں میں جہاں سماج کے دو الگ الگ رنگ نظر آتے ہیں وہیں ایک حقیقت چیخ چیخ کر اپنی موجودگی درج کرا رہی تھی اور وہ تھا دونوں جگہ پر آنے والے مظاہرین کا جذبہ۔ ایک ماہ سے زیادہ مدت سے اپنا گھر بار چھوڑ کر سردیوں میں پڑے ان کسانوں کے جذبہ میں کسی قسم کی کوئی کمی نظر نہیں آئی۔ میرے خیال سے حکومت کو اپنی پالیسیوں کا پھر سےاحاطہ کرنا چاہیے اور اسے سنجیدگی سے اس پر غور کرنا چاہیے کہ اگر عوام نے اتنی بڑی اکثریت انہیں دی ہے تو وہ ملک کی ترقی اور بھائی چارے کے فروغ کے لئے دی ہے اور اگر سماج کا کوئی بھی طبقہ حکومت کے کسی قانون سے ناخوش ہے تو اسے قانون پر ازسر نو غور کرنا چاہیے۔ ضد کی سیاست کبھی بھی سودمند ثابت نہیں ہوتی۔ دور اندیشی سے کام لینے کی ضرورت ہے، دلوں کو جیتنے کے لئے تمام طبقوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اگر کسانوں کے احتجاج کو بھی خطہ اور مذہب کا رنگ دینے کی کوشش کی گئی تو ملک کے لئے نقصاندہ ہوگا۔ حکومت کے تین اتحادی ساتھ چھوڑ چکے ہیں، اس پرغور کرنے کی ضرورت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Dec 2020, 8:10 PM