اردو صحافت کے 200 سال: ہم زندہ تھے، ہم زندہ ہیں، ہم زندہ رہیں گے... ویڈیو
سینئر صحافی شاہد صدیقی نے کہا کہ اردو ہمیشہ زندگی کی علامت رہی ہے اور اس نے تبدیلی کی صحافت کی ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان میں اردو صحافت کو آج 200 سال مکمل ہو چکے ہیں، آج ہی کے دن یعنی 27 مارچ 1822 کو کلکتہ سے جام جہاں نما نامی اردو اخبار نکالا گیا تھا۔ اس موقع پر قومی آواز کے ایڈیٹر ان چیف ظفر آغا نے سینئر صحافی شاہد صدیقی سے خصوصی گفتگو کی۔
اپنے خصوصی پروگرام کے دوان ظفر آغا نے فراق گورکھپوری کے اس شعر ’قرنوں کے مٹانے سے مٹے ہیں نہ مٹیں گے، ہم زندہ تھے، ہم زندہ ہیں، ہم زندہ رہیں گے‘ سے بات چیت کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت کا جو سفر 200 سال قبل شروع ہوا تھا وہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو صحافت نے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا اور آزادی کے بعد اس پر سخت وقت پڑا، اس کے باوجود اس کا سفر نہ صرف ہندوستان اور پاکستان بلکہ ساری دنیا سے جاری و ساری ہے۔
اس موقع پر سینئر صحافی شاہد صدیقی نے کہا کہ اردو ہمیشہ زندگی کی علامت رہی ہے اور اس نے تبدیلی کی صحافت کی ہے۔ اردو صحافت نے ملک کی آزادی سے قبل جب پرنٹنگ اور ٹیکنالوجی کا نیا دور آیا تو اس کے اور پرانی تہذیب کے درمیان پل بنانے کا کام کیا، یہاں تک کہ جب دہلی سے 1857 کی جنگ آزادی کا آغاز کیا گیا تو اس کی باگ ڈور بھی اردو صحافت ہی نے سنبھالی۔ مولوی محمد باقر اردو کے مشہور صحافی تھے جنہیں انگریزوں نے شہید کیا اور کہا جاتا ہے کہ انہیں توپ سے اڑایا گیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا الہلال اور البلاغ ہو یا لاہور سے شائع ہونے والا پرتاپ ہو یا مولانا ظفر علی خان کا زمیندار ہو، ان سبھی نے آزادی کی جد و جہد کو آگے بڑھایا۔ یہاں تک کہ لالہ لاجپت رائے نے بھی اردو اخبار نکالا۔ اس کے علاوہ بھگت سنگھ، مہاتما گاندھی، سبھاش چندر بوس تک نے بھی اردو میں تقاریر کیں اور نعرے دیئے۔
انہوں نے کہا کہ ہندوستان کو کشمیر سے کنیا کماری اور آسام ، مہاراشٹر سے کوئی زبان اگر لوگوں کو جوڑتی تھی تو کوئی اور نہیں وہ صرف اور صرف اردو تھی۔ اردو کسی مذہب کی زبان نہیں تھی، مگر بدقسمتی سے تقسیم ہند سے اردو کو بھی تقسیم کر دیا۔ شاہد صدیقی نے بتایا کہ ان کے والد نے بھی سال 1922 میں راجہ مہیندر پرتاپ کی افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت کے لئے ’مہاجر‘ نام سے اخبار شائع کیا تھا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد لوگوں کو احساس تھا کہ شاہد ہندوستان میں مسلمان ہمیشہ دوئم درجہ کا شہری ہی رہے گا اور یہاں جمہوریت نہیں پنپے گی لیکن اردو اخباروں نے صرف صحافت کا ہی نہیں بلکہ قیادت کا رول بھی ادا کیا۔ یہاں تک کہ اردو صحافیوں نے حزب مخالف کا رول بھی ادا کیا۔
اردو صحافت سے وابستہ لوگوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے شاہد صدیقی نے اپنی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے اخبار تک تقسیم کرنے کا کام کیا، گھر کے بجلی پانی کنیکشن تک کٹ گئے تھے اور وہ سڑک پر جاکر پڑھائی کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ انگریزی کی جانب بھی جا سکتے تھے لیکن لوگوں کے یہ کہنے کے باوجود کہ اردو کا کوئی مستقبل نہیں ہے، انہوں نے اردو اخبار نئی دنیا شروع کیا اور اپنی بے باک صحافت کے لئے انھیں جیل بھی جانا پڑا۔
شاہد صدیقی نے اردو صحافت میں سابق وزیر اعظم آنجہانی راجیو گاندھی کے تعاون کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ہم راجیو گاندھی سے ملاقات کرنے کے لئے گئے۔ راجیو جی نے مجھے اس بات پر قائل کیا کہ میں اردو کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے منسلک کروں۔ بعد میں نرسمہا راؤ کے دور میں مادھو راؤ سندھیا نے مجھے نیشنل کونسل فار پروموشن آف اردو لینگویج کی ذمہ داری سونپی۔ میں نے سب سے پہلے تمام کتابت کے مراکز بند کر کے کمپیوٹر سینٹر کھولے۔ میرا خیال تھا کہ کوئی بھی زبان اگر نئی ٹیکنالوجی سے منسلک نہیں ہوتی وہ ختم ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آج جو اردو نظر آ رہی ہے وہ اسی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی وجہ سے ہے۔‘‘
شاہد صدیق نے بتایا کہ نئی ٹیکنالوجی کا اردو صحافت کو فائدہ بھی ہوا اور نقصان بھی۔ آج متعدد اردو اخبارات بند ہوتے جا رہے ہیں۔ مجبوراً مجھے نئی دنیا اخبار کو بند کرنا پڑا۔ لیکن اردو کو نئی ٹیکنالوجی سے زندگی اس طرح ملی کہ آج ہر کوئی گھر بیٹھے صحافی بن گیا ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ اردو بولنے والا آج دنیا سے جڑ گیا ہے۔ اردو رسم الخط بھلے ہی تھوڑی کمزور پڑ گئی ہو لیکن اس کا لب و لہجہ قائم و دائم ہے۔ امریکہ سے لے کر آسٹریلیا اور جاپان تک اردو داں آپس میں جڑ گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : اردو صحافت کے 200 سال: تاریخ کے آئینہ میں
آخر میں اردو صحافیوں کے لئے پیغام دیتے ہوئے شاہد صدیقی نے کہا کہ ’’پہلے آپ محدود تھے لیکن آج میں اگر کوئی بات اردو میں کہتا ہوں تو وہ منٹوں میں دنیا تک پہنچ جاتی ہے۔ اردو والے ایک بات ضرور یاد رکھیں کہ وقت کے ساتھ آپ کو بدلتے رہنا ہوگا۔ آپ کو عام آدمی کی بات ان تک ان کی زبان میں پہنچانی ہوگی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔