میں نور بن کے زمانے میں پھیل جاؤں گا – تم آفتاب میں کیڑے نکالتے رہنا
معروف شاعر راحت اندوری ایک ادارہ تھے جن کا کلام اور انداز دونوں ہی انتہائی مقبول تھے اور کچھ لوگ تو انداز کی وجہ سے انہیں مشاعروں کا امیتابھ بچن کہتے تھے
مشہور شاعر راحت اندوری کا کل سہ پہر مدھیہ پردیش کے شہر اندور کے ایک اسپتال میں شدید دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا، وہ کووڈ- 19 کے بھی شکار تھے اور گزشتہ ہفتہ سے ان کا علاج جاری تھا۔
کلام سناتے وقت اسٹیج پر ان کا جو انداز ہوتا تھا، وہ اسی لہجے اور تیور کے لیے یاد رکھے جائیں گے۔ممبئی میں ہمیشہ اردو والوں نے عروس البلاد کے مشاعروں میں انہیں مدعو کیا اور آج ان کی اچانک موت پر ممبئی کے ادب دوست غم زدہ ہیں۔
بزرگ شاعر ارتضیٰ نشاط نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہاکہ راحت صاحب کے انتقال سے ان لوگوں نے راحت کی سانس لی جوان کے شعرو ں کی کاٹ سے زخمی ہورہے تھے،اور حقیقت ہے کہ راحت نے اپنی شاعری سے بہت سے ظالم اور بے حس حکمرانوں کو بے چین کر رکھا تھااور ان کی نیندیں حرام ہوگئی تھیں اور وہ سیدھا وار کرتے تھے۔ان کی شاعری طنز اور مزاح بہت مزہ دے جاتا تھا،اللہ تعالیٰ ان کو جوار رحمت میں جگہ عطا کرےاور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
ایک عرصے تک روزنامہ انقلاب سے وابستہ رہے صحافی اور شاعر ندیم صدیقی نے کہاکہ راحت اندوری ہمارے مشاعروں کے ہیرو تھے ان کی رحلت سے اردو مشاعروں کے شائقین یقیناً غم زدہ ہیں۔ اندور کے راحت اللہ قریشی جو راحت اندوری کے نام سے ساتویں دہائی میں مشاعروں میں معروف ہوئے اور دیکھتےہی دیکھتے انہوں نے اپنے کلام اور اپنے شعر کہنے کے انداز سے لوگوں کے دلوں پر ایک طویل مدت راج کیا وہ اس دور کےمشاعروں میں انتہائی مقبول شاعر تھے اور ان کین جگہ کوئی پر نہیں کرسکتا۔
راحت اندوری نے فلموں میں نغمہ نگاری بھی کی۔ ان کی شاعری کی کتابیں بھی شائع ہوئیں جس میں وہ اپنے کلام اور مشاعرے کے اسٹیج پر پرفارمنس کے سبب لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب تھے۔شعر خوانی کا ان کاانداز بہت ہی پاور فل تھا۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ان کی مقبولیت میں انکی’پیش کش‘ اثر انداز رہی یا کلام ،مگر یہ حقیقت ہے کہ وہ اِس دور کے اُردو مشاعروں کے مقبول ترین شاعر کے طور پر تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ اس وقت ان کا یہ شعریاد آتا ہے: میں نور بن کے زمانےمیں پھیل جاؤں گا تم آفتاب میں کیڑے نکالتے رہنا۔
معروف شاعر ڈاکٹر قاسم امام نے راحت اندوری کے انتقال پر غم زدہ لہجہ میں کہاکہ وہ مجھ کو چھوڑ گیا ،یہ کمال ہے اس کاارادہ میں نے کیا تھاکہ چھوڑ دونگا اسے،اور یہ ہیں راحت بھائی ،اور یہ تھے راحت بھائی۔ایک زندہ دل شاعر پوری دنیا میں اپنے لہجے ،اپنے تیور کی وجہ سے پہنچانے جاتے تھے ۔
ہم نے کئی مشاعرے ان کے ساتھ پڑھے۔ان کی شفقتیں اور ان کی محبتیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں۔ان کا جانا ،اردو شاعری کا ،بالخصوص عوامی شاعری کا بہت بڑا نقصان ہے۔اسٹیج پر ان کی شوخیاں ان کے برجستہ جملے اور فقرے مدتوں یاد رہیں گے۔اس کا اظہار معروف شاعر ڈاکٹر قاسم امام نے کیا ہے۔
معروف شاعر اورکوئز مقابلوں کے لیے مشہورحامد اقبال نے کہاکہ ان کی شاعری کامنفرد اندازتھا، لاتعدادلوگوں نے سن کی نقل کرنے کی کوشش کی اور مشاعرہ پڑھنے بھی نقل کرتے تھے،لیکن راحت اندوری نہیں بن سکے۔راحت اندوری یکتا تھے۔ان کے ساتھ میں نے کہی مشاعرے پڑھے وہ نئے شعراء کو بہت جلد اپنا دوست بنا لیتے تھے اور کہیں ایسا نہیں محسوس ہوتا تھا کہ وہ مشاعروں کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔درحقیقت وہ مشاعروں کے امیتابھ بچن تھے۔
معروف شاعر اورمنفرد انداز رکھنے والے عبید اعظم اعظمی نے کہاکہ راحت اندوری کا شمار ہندوستان کے مقبول ترین شعرا کی فہرست میں کیا جاتا ہے ان کی اس دار فانی سے رخصتی اردو زبان وادب کا ناقابل تلافی نقصان ہے۔ مجھے ان کے ساتھ کئی اہم مشاعروں میں شرکت کا شرف حاصل رہا ہے۔ وہ مشاعرے کی جان ہوا کرتے تھے، ان کے سامنے کسی اور شاعر کا چراغ جلنا بڑا مشکل مرحلہ ہوا کرتا تھا۔راحت صاحب اپنی شاعری اور اپنے تیور کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے-
شاعر اور مشاعروں کے منتظیم مشیر انصاری نے کہاکہ راحت اندوری کے انتقال کی خبر سے دکھ پہنچا ہے۔وہ شاعروں کا شاعرتھا۔انہیں شاعروں کابادشاہ بھی کہاجاسکتا ہے۔میں شہر میں مشاعروں کا انعقاد کرتا ہوں اور ان سے قربت کا موقعہ ملا۔وہ اپنا منفرد انداز رکھتے تھے۔ایک بے باک شاعر تھے،جس نے زمانے میں اپنی پہچان خود بنائی۔اللہ انہیں مغفرت کرے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 12 Aug 2020, 7:40 AM