روایات کو توڑ کر آگے بڑھتی مسلم لڑکیاں
حال ہی میں پیش آئے کئی واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اب مسلم خواتین مزید انتظار نہیں کریں گی اور وہ بھی ترقی کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکنے کے لئے بیتاب ہیں۔
ایک زمانے تک ہندوستانی معاشرے میں لڑکیوں کے ساتھ تفریق ہوتی رہی اور خواتین استحصال کا شکار بنی رہیں۔ اس کے بعد کئی ایسے ریفرارمس ہوئے جس کے بعد خواتین کو کچھ مساوی حقوق ملنے شروع ہوئے۔ لیکن حقوق کے تفویض کی اس جنگ میں مسلم خواتین کہیں دور کھڑی اپنی باری کا انتظار کرتی رہیں۔ حال ہی میں پیش آئے کئی واقعات یہ بتاتے ہیں کہ اب مسلم خواتین مزید انتظار نہیں کریں گی اور وہ بھی ترقی کے آسمان پر ستارہ بن کر چمکنے کے لئے بیتاب ہیں۔
اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی کچھ لڑکیوں نے چہکنا شروع بھی کر دیا ہے اور انہوں نے اپنی ترقی کے لئے کھیل کا راستہ اختیار کیا ہے۔ کرکٹ ، ہاکی، کشتی اور ڈسکس تھرو جیسے کھیلوں میں جوہر دکھا رہی ہیں ۔ مسلم خواتین میں تیزی سے تبدیل ہوتے ذہنوں کی یہ لڑکیاں عکاسی کرتی ہیں اور روایات کو توڑ کر ترقی کی راہ کو ہموار کرنے میں مصروف ہیں۔
چودہ سالہ واجدہ، خانہ بدوش قلندر طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں اور نویں جماعت کی طالبہ ہے ۔ واجدہ کہتی ہیں کہ آس پاس کے علاقوں میں رہ رہے ڈیڑھ دو لاکھ قلندر برادی میں کوئی لڑکی چھٹی جماعت سے زیادہ نہیں پڑھی ہے صرف وہ ہی نویں جماعت تک پہنچ پائی ہے۔ واجدہ محض پڑھ ہی نہیں رہی بلکہ کھیل میں بھی نام روشن کر رہی ہیں۔قصبہ میرانپور کی رہائشی واجدہ مظفر نگر ضلع سطحی کشتی مقابلہ جیت چکی ہیں اور زونل سطح کی ڈسکس تھرو کی چیمپین ہیں۔ وہ 30 میٹر تک تشتری پھینک سکتی ہیں جبکہ اس زمرے میں ریاستی ریکارڈ 26 میٹر کا ہے۔ واجدہ ایک جھونپڑی میں رہتی ہیں اور اس کے والد ریاض احمد کو اپنی بیٹی پر فخر ہے ۔ اگر چہ واجدہ کو کوچ اور خوراک میسر نہیں ،پھر بھی وہ اپنے اسکول کی اسٹار ہیں۔
شیریں اس وقت جموں و کشمیر میں ہے اور روہتک یونیورسٹی کی جانب سے یونیورسٹی کرکٹ لیگ میں کھیل رہی ہیں۔ 19 سالہ شیریں اتر پردیش سے ہاکی اور کرکٹ دونوں ٹیموں میں کھیل چکی ہیں ۔فی الحال وہ ہاکی کے بجائے بلے سے اپنے جوہر دکھا رہی ہیں۔ بجنور اسٹیڈیم میں شیریں لڑکوں کے ساتھ پریکٹس کرتی ہیں۔ جب وہ ڈرئیو سے چوکا لگاتی ہے تو سب دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ شیریں نے حال ہی میں بریلی یونیورسٹی کے خلاف شاندار سنچری لگائی ہے۔ اتر پردیش انڈر 19 خاتون کرکٹ ٹیم میں کھیل رہی شیریں تیز گیندبازی بھی کرتی ہیں۔ دراصل شیریں میں اتنی زیادہ توانائی ہاکی کی وجہ سے آئی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ شیریں اتر پردیش ہاکی ٹیم میں بھی نمائندگی کر چکی ہیں۔
اتر پردیش خاتون ہاکی ٹیم سے کھیل رہی بیک ہینڈ کی بہترین کھلاڑی 18 سالہ اقصیٰ مبشر بھی کافی ہونہار ہیں۔ وہ سنٹر فارورڈ کھیلتی ہے اور کے ڈی بابو اسٹیڈیم لکھنؤ میں کافی لوگ ان کے کھیل کو سراہتے بھی ہیں۔ ملک بھر کے تمام ہاکی مقابلوں میں انہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ اقصیٰ کا گھر بجنور کے قاضی پاڑہ میں ہے۔ ان کے والد مبشر کہتے ہیں کہ بیٹی اچھا کھیل رہی ہے اور ان کا نام روشن کر رہی ہے۔ اقصیٰ ہندوستان خاتون ہاکی ٹیم میں شامل ہونے کی دعویدار ہیں۔ جوش سے لبریز اقصیٰ کہتی ہیں ’’ مجھے بس ایک چانس چاہئے، پھر میں نے جانی یا میری ہاکی اسٹک نے۔‘‘
نغمہ بجنور کی پہلی لڑکی ہےجس نے مشکل حالات اور تمام ادھر ادھر کی باتیں ہونے کے باوجود قومی سطح پر ہاکی اسٹک کے ساتھ اپنے جوہر دکھا چکی ہیں۔ ایک وقت میں ہندوستانی خاتون ہاکی ٹیم میں صباانجم کا متبادل کہلانے والی 26 سالہ نغمہ اب بجور میں نئی ابھرنے والی لڑکیوں کو ٹپس دیتی ہیں۔
ہاکی چھوڑ کر کرکٹ کا دامن تھام لینے والی نغمہ کہتی ہے ’’ کرکٹ کھیل کر میں اس مقام پر پہنچ گئی ہوں جہاں ہاکی میں پہنچنے میں مجھے 10 سال کا وقت لگا اور کرکٹ میں گلیمر بھی زیادہ ہے۔ نغمہ کے ہاکی کھیلنے کی شروعات بھی کافی دلچسپ ہے انہوں نے 9ویں کلاس سے ہاکی اسٹک پکڑی اور پھر دیکھتے دیکھتےوہ یو پی کی بہترین سنٹر فارورڈ بن گئیں ۔ ایک بار انہوں نے ہندوستانی خاتون ہاکی ٹیم کی کپتان رانی رام پال کو چکمہ دے کر گو ل کر دیا تھا جسے یاد کر کے وہ آج بھی مسکراتی ہیں۔
سائی انڈیا کے افسران نے جب نغمہ کا ہاسٹل میں رہنے کے لئے انتخاب کیا تو وہ محض 14 سال کی تھیں ۔ میرٹھ میں انٹر اسکول ہاکی چیمپین شپ میں وہ کھیلیں اور ویمن دی ٹورنامنٹ رہیں۔ صبا انجم بننے کا خواب پورا نہ ہونے کا ملال انہیں آج تک ہے، وہ کہتی ہیں ’’میں صبا انجم بننا چاہتی تھی لیکن کھیل کی اندرونی سیاست نے میرا کیریئر ختم کر دیا۔
شیریں فاطمہ جوکہ نغمہ کی دوست ہیں کہتی ہیں ’’ نغمہ میری سینئر ہیں اور دوست بھی۔ جب ان کے ساتھ یہ سب کچھ ہوا تو میں کرکٹ کھیلنے لگی لیکن یہاں بھی سب کچھ اچھا نہیں ہے۔ ‘‘
مسلم طبقہ سے تعلق رکھنے والی نغمہ ، شیریں، اقصیٰ اور واجدہ وہ لڑکیاں ہیں جن کو ان کے خاندان سے کافی حمایت حاصل ہوئی۔ شیریں فاطمہ کے والد جو کہ ایک بزنس مین ہیں اور نغمہ کے خاندان کے افراد بھی ترقی پسند ہیں۔ اقصیٰ کے والد مبشر کہتے ہیں ’بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں بلکہ باعث فخر ہوتی ہیں۔‘ بجنور کی ناحید فاطمہ اور دیگر لڑکیوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں نے کھیل میں اپنا نام روشن کر کے دوسری لڑکیوں کے لئے مثال قائم کی ہے اور ترقی کے بند پڑے دروازوں کو کھول دیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 31 Dec 2017, 3:44 PM