ایرانی طالبہ کوما میں، مغربی رہنماؤں کی تہران پر کڑی تنقید
ایران کی اخلاقی پولیس نے حجاب نہ پہننے پر مبینہ طور پر ایک مرتبہ پھر ایک سولہ سالہ طالبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے، جو کوما میں ہے۔ جرمنی کی وزیر خارجہ نے اسے ’ناقابل برداشت‘ حملہ قرار دیا ہے۔
مغربی حکومتوں نے ایرانی سکیورٹی فورسز کے مبینہ حملے کے بعد ایک نوجوان طالبہ کے کوما میں چلے جانے کے بعد تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جرمنی کی وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اس واقعے کو ''ناقابل برداشت‘‘ قرار دیا ہے جبکہ امریکہ کی طرف سے بھی تہران حکومت کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔
ایران میں خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک پر ایک عرصے سے بحث جاری ہے اور مغربی ممالک کی طرف سے تہران حکومت پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں انسانی حقوق کے ایک گروپ کی طرف سے ایک تازہ ترین بیان میں یہ خبر منظر عام پر آئی کہ ایران کی ایک انڈرگراؤنڈ ٹرین میں سفر کرنے والی سولہ سالہ طالبہ گاراوند اخلاقی پولیس کے تشدد کا نشانہ بننے کے سبب کوما میں چلی گئی ہے۔
چند روز قبل یہ سولہ سالہ ایرانی طالبہ زیر زمین ٹرین میں بے ہوش ہو گئی تھی۔ کرد حقوق انسانی گروپ ہینگاؤ نے منگل کے روز کہا کہ ارمیتا گاروند کو حجاب پہننے سے انکار کرنے پر ایران کی اخلاقی پولیس کی خاتون افسران نے تشدد کا نشانہ بنایا۔
حکام نے تاہم دعویٰ کیا کہ وہ لو بلڈ پریشر کی وجہ سے بے ہوش ہوئی تھی۔ ہینگاؤ کے مطابق گاروند پر اتوار کے روز تہران کے شہداء انڈر گراونڈ ریلوے اسٹیشن پر حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے اسے متعدد زخم آئے۔ گروپ نے بتایا کہ تہران کے فجر ہسپتال میں انتہائی سخت سکیورٹی میں ان کا علاج کیا جا رہا ہے اور متاثرہ لڑکی سے کسی کو بھی ملنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے، حتی کہ اس کے اہل خانہ کو بھی نہیں۔ اس واقعے کو مہسا امینی کے واقعے کے مماثل قرار دیا جا رہا ہے۔
جرمن وزیر نے سوشل میڈیا نیٹ ورک ایکس پر ایک پیغام میں لکھا،''ایران میں ایک بار پھر ایک نوجوان عورت اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہے۔ صرف اس لیے کہ اس نے سب وے میں سفر کرتے ہوئے ہیڈ اسکارف نہیں پہنا اور اپنے بال دکھائے۔ یہ ناقابل برداشت ہے۔‘‘
اُدھر ایران کے لیے مقرر خصوصی امریکی مندوب ابرام پالے نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا، ''واشنگٹنایران کی نام نہاد اخلاقی پولیس کے حملے کی خبر سے حیران اور پریشان ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی حکام اس خاتون کی حالت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور تہران حکومت کو ان زیادیتوں کا جواب دہ ٹھہرانے کے لیے ایران کی بہادر عوام کیساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
یہ معاملہ سوشل میڈیا پر شدید بحث کا موضوع اُس وقت سے بن گیا جب اس واقعے کی ایک مبینہ ویڈیو گردش کرنے لگی، جس میں گاراوند کو بغیر نقاب یا ہیڈ اسکارف کے دیکھا گیا اور پولیس اہلکاروں نے اُسے باقاعدہ میٹرو کے اندر دھکیلا اور بعدازاں اسی میٹرو میں سے ایک بے ہوش یا غیر متحرک جسم کو باہر نکالتے دیکھا گیا۔
دریں اثناء ناروے میں قائم این جی او ''ایران ہیومن رائٹس‘‘ نے ''حقائق کو مسخ کرنے اور اپنے جرائم کے شواہد کو چھپانے‘‘ کی ایک طویل تاریخ کا ایران پر الزام لگاتے ہوئے گاراوند کیس کی آزاد بین الاقوامی تحقیقات کروانے اور اس کی تفصیلات منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اس این جی او کے ڈائریکٹر محمود امیری مقدم کا اس بارے میں کہنا تھا، ''اسلامی جمہوریہ حجاب کے لازمی ہونے کے ضوابط کی خلاف ورزیوں سے لڑنے کی آڑ میں خواتین کو ہراساں کرنے اور جبر کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔‘‘
ہینگاؤ نے بتایا کہ تہران کی رہائشی گاراوند کا تعلق ایران کے کرد آبادی والے مغربی شہر کرمان شاہ سے ہے۔ ہینگاؤ کے مطابق روزنامہ شرق کی ایک صحافی مریم لطفی نے اس واقعے کے بعد ہسپتال جانے کی کوشش کی لیکن انہیں فوری طور پر حراست میں لے لیا گیا تاہم بعد میں انہیں رہا کر دیا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔