دنیا کی ترقی اب افریقہ کی بڑھتی ہوئی آبادی پر منحصر

امیر ممالک کی آبادی عمروں میں اضافے کے ساتھ سکڑ رہی ہے جبکہ افریقی ممالک کی آبادی میں نوجوانوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ صورتحال افریقہ کو فائدہ پہنچا کر اسے ایک ابھرتی ہوئی منڈی میں بدل سکتی ہے۔

دنیا کی ترقی اب افریقہ کی بڑھتی ہوئی آبادی پر منحصر
دنیا کی ترقی اب افریقہ کی بڑھتی ہوئی آبادی پر منحصر
user

Dw

اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق دنیا کی آبادی اب ریکارڈ آٹھ ارب تک پہنچ گئی ہے۔ افریقی ممالک خاص طور پر سب صحارا کے علاقے کے ممالک آبادی میں اس ترقی کے بنیادی محرک ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے زیادہ آمدنی والے ممالک میں آبادی یا تو سکڑ رہی ہے یا سکڑنے لگی ہے۔

اگر یہ رجحان اگلی چند دہائیوں میں جاری رہا تو باقی دنیا کے ساتھ افریقہ کے تعلقات میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ زیادہ تر صنعتی ممالک بشمول جاپان، جنوبی کوریا اور یورپی یونین کے تمام ملکوں میں افزائش نسل کی شرح فی الحال متبادل کی سطح تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ یہ شرح فی عورت تقریباً 2.1 بچوں کی پیدائش بنتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مرنے والوں کی تعداد زیادہ ہے اور پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد کم۔ اس کے نتیجے میں، مستقبل میں مقامی افرادی قوت اتنی زیادہ نہیں ہو گی کہ وہ ریٹائر ہونے والوں کی ملازمتیں سنبھال سکیں۔


دوسری طرف افریقہ مخالف سمت میں جا رہا ہے۔ سب صحارا کے علاقے میں دنیا کی سب سے زیادہ اوسط شرح پیدائش 4.6 ہے، نائیجر 6.8 بچے فی عورت کے ساتھ سرفہرست ہے۔ اس کے بعد صومالیہ 6 جبکہ کانگو، مالی اور چاڈ میں سے ہر ایک ملک میں شرح پیدائش 5 سے زیادہ ہے۔

اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق 2050 ء تک افریقی افراد کی تعداد دوگنی ہو جائے گی اور یہ دنیا کی آبادی کا ایک چوتھائی بن جائے گی۔


افریقی ایکسپورٹ امپورٹ بینک کے چیف اکانومسٹ ہپولائٹ فوفیک نے بتایا کہ مثال کے طور پر بیسویں صدی کے اوائل میں جب اس کے ماضی سے موازنہ کیا جائے تو افریقہ کی آبادی میں اضافہ تیزی سے نہیں ہو رہا ہے یہ درحقیقت باقی دنیا کی طرح سست ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم جو دیکھتے ہیں وہ بنیادی طور پر ترقی یافتہ ممالک کی آبادی میں اضافے کی شرح میں تیزی سے کمی ہے۔ افریقہ میں بچوں کی اموات کی شرح میں کمی کے ساتھ۔‘‘

افریقی معاشرے نہ صرف تیزی سے ترقی کر رہے ہیں بلکہ وہ تقریباً کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں بہت چھوٹے ہیں۔ یورپ میں اوسط عمر 42.5 سال ہے اور افریقہ میں یہ تعداد 18 سال سے تک کم ہے۔ لیکن افریقہ اور باقی دنیا کے لیے آبادیاتی اضافے کے نتائج کیا ہیں؟


کیا افریقہ میں آبادی میں اضافے کی کافی گنجائش ہے؟

فوفیک کے مطابق براعظم کے پاس اتنی زیادہ زمین اور وسائل موجود ہیں کہ وہ اس سے کہیں زیادہ آبادی کی میزبانی کر سکے۔ اس وقت افریقہ میں آبادی کی کثافت 45 سے 47 افراد فی مربع کلومیٹر کے درمیان ہے جبکہ یورپ کے لیے یہ 117 اور ایشیا کے لیے تقریباً 150 ہے۔ کینیا میں قائم افریقن پاپولیشن اینڈ ہیلتھ ریسرچ سینٹر کے سینیئر محقق بلیسنگ ایمبیرو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''افریقہ کو اپنی ترقی کے لیے آبادی کے لحاظ سے اس توسیع کی ضرورت ہے۔ فیکٹریاں، ہائی ویز، ٹیکنالوجیز اور انفراسٹرکچر خود سے ابھرنے والے نہیں ہیں۔ کسی کو ان کی تعمیر، ان کا انتظام اور استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘

افریقہ دنیا کے سب سے بڑے براعظموں میں سے ایک ہے۔ اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے قابل رہائش زمین کافی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ براعظم دنیا کے معدنی ذخائر کا تقریباً 30 فیصد، دنیا کے تیل کا 12فیصد اور قدرتی گیس کے آٹھ فیصد ذخائر کا گھر ہے۔ دنیا کی 60 فیصد قابل کاشت زمین افریقہ میں واقع ہے۔ بلیسنگ ایمبیرو نے کہا،''بڑی آبادی کا امکان موجود ہے۔ لیکن چیلنج ان کے لیے تعلیم اور نوکریاں فراہم کرنا ہے۔‘‘


انہوں نےکہا، ''ابھی ہم افریقی ممالک میں ایک غیر مساوی ترقی دیکھ رہے ہیں،کچھ جگہوں پر، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور معیشت میں سرمایہ کاری شہری علاقوں میں مرکوز کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے، جس سے بڑی کچی بستیاں بن رہی ہیں، جو ان شہروں کی مستقل خصوصیت بن رہی ہیں۔ ‘‘

آبادیاتی تبدیلیوں کے معیشت پر اثرات

ماہرین معیشت کو یقین ہے کہ طویل مدت میں افریقہ کی آبادیاتی ترقی براعظم کی معیشت کو فروغ دے گی اور اس کی سیاسی مطابقت میں اضافہ کرے گی۔ زیادہ آمدنی والے ممالک میں معاشروں کا اگلے تین سے چار دہائیوں میں بوڑھے ہونے کا امکان ہے۔ 2050 تک یورپ اور شمالی امریکہ میں رہنے والے چار میں سے ایک فرد کی عمر 65 سال یا اس سے زیادہ ہو گی لیکن نصف سے زیادہ افریقی 25 سال سے کم عمر کے ہوں گے۔


فوفیک نے کہا کہ عمر رسیدہ آبادی ملک کی معیشت کے لیے عام طور پر بری خبر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وہ ممالک جہاں لوگوں کی اکثریت کام کرنے کی عمر کی ہے وہ سرمایہ کاری کے لیے سازگار جگہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ہم جانتے ہیں کہ لوگ اپنی کام کرنے کی عمر میں زیادہ (سرمایہ) استعمال کرتے ہیں، لیکن ریٹائر ہونے کے بعد ان کی کھپت اور اخراجات کم ہو جاتے ہیں۔‘‘

دنیا کو افریقہ کے نوجوانوں کی ضرورت

فوفیک نے کہا کہ یہاں تک کہ اگر مقامی حکومتیں سب کے لیے کافی ملازمتیں فراہم کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو بھی براعظم کی آبادی کے ایک تناسب کے پاس کسی اور جگہ یعنی ایسے ممالک میں ہجرت کرنے کا اختیار ہوگا، جہاں نوجوان افرادی قوت کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا، ''یہ عمل کئی دہائیوں سے شروع ہو چکا ہے، اور (افریقہ سے باہر) کچھ ممالک نے تارکین وطن کی بدولت آبادی میں کمی سے گریز کیا ہے۔‘‘


ہجرت کارکنوں کو میزبان ممالک میں اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور پھر نئی تکنیک اور معلومات کو اپنے آبائی ممالک میں واپس لانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ایمبیرو نے نشاندہی کی، ''وہ رقم جو تارکین وطن اپنے خاندانوں کی مدد کے لیے گھر بھیجتے ہیں، اسے مت بھولیں۔ اب کچھ ممالک کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ان ترسیلات پر مشتمل ہے۔‘‘

انہوں نے کہا، ''پرتگال اور اسپین جیسی جنوبی یورپ کی معیشتوں نے یورپی یونین کے مزدوروں کی نقل و حرکت کی آزادی سے نمایاں طور پر فائدہ اٹھایاکیونکہ بے روزگار لوگ شمالی ممالک میں ملازمتیں تلاش کرنے اور اپنی بچت کو گھر واپس لانے کے قابل تھے۔‘‘


بنیادی طور پر اس کے وافر وسائل کی وجہ سےدنیا کی معیشت پہلے ہی افریقہ پر منحصر ہے۔ لیکن عالمی تجارت میں اس براعظم کا حصہ صرف 3 فیصد پر کم ہے۔ اگر موجودہ آبادیاتی تبدیلیاں اسی طرز پر چلتی رہیں تو افریقہ پر انحصار بڑھنے کا امکان ہے اور ممکنہ طور پر براعظم کو موجودہ غیر مساوی توازن کو درست کرنے کے لیے فائدہ اٹھانا چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔