دنیا میں انتہائی غربت ابھی برقرار رہے گی، عالمی بینک
عالمی بینک کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ دنیا سن 2030 تک انتہائی غربت کے خاتمے کا ہدف حاصل کرسکے۔ ماہرین کے مطابق کووڈ انیس نے برسوں کی ترقی مٹی میں ملا دی۔
عالمی بینک نے بدھ کے روز"غربت اور مشترکہ خوشحالی" کے عنوان سے ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں عالمی سطح پر انتہائی غربت کے خاتمے کی کوششوں میں اب تک کی پیش رفت کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کورونا وائرس کی وبا کو ایک تاریخی موڑ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس وبا نے غربت کے خاتمے کے لیے دہائیوں سے کی جانے والی کوششوں پر پانی پھیر دیا۔
عالمی بینک کے مطابق سن 2020 میں دنیا بھر میں 71 ملین سے زیادہ افراد یومیہ 2.15 ڈالر یا اس سے کم (جو انتہائی غربت کا نیاعالمی معیار ہے) پر زندگی گزار رہے تھے جن کی تعداد اب 719 ملین ہوگئی ہے جو کہ عالمی آبادی کا تقریباً 9.3 فیصد ہے۔ یہ گزشتہ 30 برسوں کے دوران کسی ایک برس میں انتہائی غربت کی سطح تک پہنچنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
عالمی بینک کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صورتحال اب اور بھی تاریک ہوگئی ہے کیونکہ یوکرین میں روس کی جنگ کے ساتھ ساتھ چین کی کمزور ہوتی معیشت، افراط زر اور خوراک اور توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب مستقبل میں پیش رفت میں مزید رکاوٹیں پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔
عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس کا کہنا تھا کہ اس رپورٹ میں ترقی کو فروغ دینے والی بڑی پالیسی اصلاحات کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ عالمی بینک کے اندازے کے مطابق سن 2030 میں دنیا کی سات فیصد آبادی انتہائی غربت میں زندگی گذارے گی۔
ڈیوڈ مالپاس نے کہا کہ انتہائی غربت کو کم کرنے میں ہونے والی پیش رفت بنیادی طور پر کمزور عالمی اقتصادی ترقی کے ساتھ رک گئی ہے۔ انہوں نے کہا، "افراط زر، کرنسی کی قدروں میں کمی اور وسیع تر ایک دوسرے کو متاثر کرنے والے بحران" نے غربت کو مزید ہوا دی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاشی نمو میں بڑے پیمانے پر اضافہ نہ ہونے کی صورت میں سن 2030 میں دنیا کے تقریباً 574 ملین افراد، جو کہ عالمی آبادی کا تقریباً 7 فیصد ہیں، انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہوں گے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ تمام انتہائی غربت کا 60 فیصد سب صحارا افریقہ سے متعلق ہے۔
37 ممالک کے بچے پیچھے چھوٹ گئے
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف نے بچوں کے انتہائی غربت سے بچنے، بنیادی تعلیم حاصل کرنے اور پرتشدد موت سے بچنے کے امکانات کے حوالے سے ایک تجزیہ پیش کیا ہے۔ اس تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ 37 ممالک گزشتہ دو دہائیوں میں ان شعبوں میں سے کم از کم ایک شعبے میں واضح طور پر پیچھے رہ گئے۔ اس کے اہم اسباب بدامنی، تصادم، مالیاتی بحران اور ناقص نظم حکمرانی ہیں۔
مالپاس کا کہنا تھا کہ حالات کی خرابی سے بچنے کے لیے ممالک کو مزید تعاون میں شامل کرنے، وسیع سبسڈی کو ختم کرنے، قلیل مدتی فوائد کے بجائے طویل مدتی ترقی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گوکہ رپورٹ میں کورونا وائرس کی وبائی مرض کی عالمی غربت میں کمی کے لیے دہائیوں سے جاری کوششوں کے لیے "سب سے بڑا دھچکا" قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس میں بتایا گیا ہے پانچ سالوں میں ترقی کی رفتار کافی سست ہوئی ہے، غریب ممالک میں آمدنی کے نقصانات امیر ملکوں کی نسبت دو گنا زیادہ رہی جس سے عالمی مالیاتی عدم مساوات میں مزید اضافہ ہوا۔
عالمی بینک کی رپورٹ میں ایسی مثالیں بھی دی گئی ہیں جن میں حکومتی امداد نے غربت کے دھچکے کو کم کیا جبکہ اس کے ساتھ اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے پاس چونکہ وسائل بہت کم ہیں اس لیے غربت میں کمی کی کوششوں کو ناکامی سے دوچار بھی ہونا پڑا۔ عالمی بینک کے چیف اکنامسٹ اندرمیت گل نے کہا کہ "اگلی دہائی کے دوران ترقی پذیر معیشتوں کے لیے بہتر صحت اور تعلیم میں سرمایہ کاری بہت اہم ہوگی۔"
رپورٹ میں دولت مند ممالک پر زور دیا گیا ہے کہ وہ جائیداد اور کاربن ٹیکس میں اضافہ کرکے اپنی آمدنی میں اضافہ کریں، اس طرح وہ غریبوں پر مزید بوجھ ڈالے بغیر سرکاری خزانے کو بھر سکتے ہیں۔
عالمی بینک نے سن 1990میں جب سے غربت کو مانیٹر کرنا شروع کیا، یہ شرح 38 فیصد تھی جو دھیرے دھیرے کم ہو کر سن 2019 میں 8.4 فیصد تک آگئی تھی۔ بدھ کے روز جاری رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ سن 2030 تک انتہائی غربت کے خاتمے کا ہدف ابھی دسترس سے باہر ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔