گر توشہ خانہ کا مقصد کچھ یوں ہوتا

ملکی اشرافیہ کو بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کو توشہ خانے میں جمع کروانا ہوتا ہے۔ یہ ایک قومی فریضہ ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے میں توشہ خانہ ہماری اشرافیہ کے لیے گالی بن چکا ہے۔

گر توشہ خانہ کا مقصد کچھ یوں ہوتا
گر توشہ خانہ کا مقصد کچھ یوں ہوتا
user

Dw

دادی کے نعمت خانہ سے مزے مزے کے مربے، اچار، میوہ جات، دودھ، ربڑی اور ایسی ہی قیمتی کھانے پینے کی اشیاء ہم بچوں کو انعام کی صورت میں اکثر اور بیشتر ملا کرتی تھیں۔ بچوں کو تنبیہ کی جاتی تھی کہ کوئی بھی نعمت خانے سے چھپ کر کسی بھی شے کو ہاتھ نہیں لگائے گا ورنہ سزا کی صورت میں اسے کھانے پینے کے مزیدار لوازمات سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ بچے اس محرومی کو جھیلنے سے بہتر سمجھتے تھے کہ چوری چھپے نعمت خانہ کا رخ ہی نہ کیا جائے ۔

یہ پرانے وقتوں کا ریفریجریٹر ہوا کرتا تھا جس میں مندرجہ بالا کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ دودھ، سالن روٹی اور انڈے وغیرہ بھی بلے بلیوں اور شرارتی بچوں سے محفوظ رکھنے کے لیے سنبھال کر رکھے جاتے تھے۔


جب کبھی نعمت خانہ کا دروازہ کھلا رہ جاتا تو بلے بلیاں تمام لوازمات پر اپنی زبانیں صاف کر جاتے اور پھر اس دن گھر والے کھانے پینے کی چیزوں سے محروم رہتے۔ نعمت خانہ سے بیشک ناواقفیت اپنی جگہ لیکن لفظ ''توشہ خانہ " آج کل بچے بچے کی زبان پر چڑھا ہوا ہے اور ازبر ہو چکا ہے۔

توشہ فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ایسا برتن جس میں دوران سفر کھانا دیا جاتا ہے لیکن توشہ خانے کی اصطلاح ایسی جگہ کے طور پر استمعال ہوتی ہے جہاں قیمتی ساز و سامان رکھا جاتا ہے۔ مختلف ممالک کے دوروں میں ہماری مطلق العنان اداروں کی اشرافیہ جو تحائف حاصل کرتی ہے اسے توشہ خانے میں جمع کروانا قومی فریضہ ہوتا ہے، جسے دیانت داری سے نبھانا سب کی ذمہ داری ہے۔


لیکن حالیہ کچھ عرصے میں توشہ خانہ ہماری اشرافیہ کے لیے گالی بن چکا ہے۔ اس کا آغاز پچھلے وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں شروع ہوا، جب توشہ خانہ سے کروڑوں روپے کی مالیت کے تحائف خود انہوں نے اور ان کی بیگم نے ناصرف ہتھیائے بلکہ بیچ بھی کھائے۔ چوری کی یہ ہنڈیا بیچ چوراہے میں کچھ اس طرح سے پھوٹی کہ تحفے میں ملی بیش قیمت گھڑی انہی کو بیچ ڈالی، جنہوں نے نذرانے کے طور پیش کی تھی۔

ابھی خان صاحب کی توشہ خانہ کے حوالے سے خبریں ماند بھی نہ پڑیں تھیں کہ مختلف ادوار کے دیگر وزیرِاعظموں، صدور، وزراء، سول اور فوجی سربراہان کے نام بھی توشہ خانہ سے قیمتی تحائف اونے پونے خرید کر اپنی ملکیت بنانے کی فہرست میں شامل ہو گئے۔ غنیمت یہ رہی کہ وہ سب اتنے زیرک نہ تھے کہ تحائف بیچتے سو یہ اعزاز صرف خان صاحب کو ہی حاصل ہے۔


توشہ خانہ 1974 میں قائم ہوا۔ اس کا مقصد تھا کہ غیر ملکی دوروں میں حاصل کیے گئے تحائف یادگار کے طور پر رکھے جائیں یا حاصل کنندہ پچاس فیصد رقم کی ادائیگی کر کے خود اپنے پاس رکھ لے۔ دوسرا مقصد ان تحائف کو کابینہ کی منظوری سے فروحت کر کے رقم ملک کے خزانے میں جمع کروائی جائے تاکہ اسے ملک و قوم کے مفاد عامہ پر خرچ کیا جا سکے۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں کسی نے بھی ایسی مثال قائم نہیں کی، جو عوام کے لیے فلاح کا باعث ہو۔

مجھے پاکستان ایک نعمت خانہ کی طرح محسوس ہوتا ہے، جس کا دروازہ پچھلے پچھتر سال سے کھلا رہ گیا ہے اور ہماری اشرافیہ اس ملک کو نعمت خانہ سمجھ کر اس پر ہاتھ صاف، جبکہ عوام بھوک اورافلاس سے خود کشیاں کر رہی ہے۔ جہاں ہمارے حکمراں طبقوں کی عیاشیوں اور نام و نمود کی خواہش روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ وہیں ہر آنے والا دن عوام کے لیے مزید سختیاں لے کر آرہا ہے۔


توشہ خانے سے لے کر قومی خزانے تک لوٹنے سے ہمارے مقتدرہ حلقوں کے نا پیٹ کبھی بھر سکتے ہیں نا ہی نیت۔ لیکن غریبوں کے نعمت خانے نان شبینہ سے دن بہ دن محروم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کی تقریباً آدھی آبادی دن رات صرف روزگار کی چکی میں پسنے کے باوجود مشکل سے گزر بسر کرنے کے قابل ہو پاتی ہے۔ چہ جائیکہ کو ئی دوسری تفریح یا زندگی میں سکون انہیں میسر ہو۔

عوام کا نعمت خانہ روزمرہ کی بنیادی ضروریات پر بھاری سیلز ٹیکس ہونے کی بنا پر پہلے ہی تقریباً خالی ہو چکا تھا کہ اب مہنگائی کے منہ زور طوفان نے ان کو دو وقت کی روٹی کا بھی محتاج کر دیا ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی ایک ریاست اپنی عوام کو فراہم کرنے میں ناکام تب ہوتی ہے جب اس کی ترجیحات عوام کی فلاح و بہبود کے بجائے کسی اور راہ کی جانب گامزن ہو۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کو قدرت نے کئی ایسی نعمتوں سے نوازا ہے، جو ترقی یافتہ ممالک کو بھی میسر نہیں۔اس کے باوجود کیوں ہمارا ملک آج اس دوراہے پر آ کھڑا ہوا ہے، جہاں سوائے مایوسی کے کچھ اور نظر نہیں آتا۔


پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود کھانے پینے کی کئی اشیاء دوسرے ممالک سے درآمد کرتا ہے۔ چونکہ ہزاروں ایکڑ زرعی زمینوں پر درخت کاٹ کر اور فصلیں اجاڑ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں تعمیر کرنے کا کاروبار عروج پر ہے، جس کے نتیجے میں غذائی قلت پیدا ہونا فطری عمل ہے اور چند ہی سال میں صورتحال مزید ابتر ہونے کےآثار نمایاں ہیں۔ مقتدرہ ادارے، حکومت اور افسر شاہی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ بجٹ کا ایک بڑا حصہ غیر پیداواری اخراجات کی نظر ہو جاتا ہے اور یہ عوام کی محنت سے وصول کیا جانے والا حصہ سال بہ سال بڑھ ہی رہا ہے۔

مہذب دنیا میں حکومتیں عوام سے ٹیکس ضرور وصول کرتی ہیں۔ لیکن اس کے صلے میں تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں سیلز ٹیکس تو ہر طبقے پر یکساں لاگو ہے لیکن اِنکم ٹیکس زیادہ تر ملازمت پیشہ طبقے سے وصول کیا جاتا ہے جبکہ امیر امراء ہیرا پھیری سے ٹیکس بچاتے ہیں اور انتظامیہ چشم پوشی سے کام لیتی ہے۔ دوسری جانب مطلق العنان اداروں کو ٹیکس میں حتی الامکان چھوٹ دی جاتی ہے اور ایک بڑا طبقہ ٹیکس کی مدمیں کوڑیاں ہی ادا کرتا ہے۔


گر توشہ خانہ غریب عوام کے لیے بھی ہوتے جہاں انہیں روٹی، کپڑا اور ضروریات زندگی کی اشیاء رعایتی داموں ہر وقت میسر ہوتیں تو ان کے نعمت خانے کبھی ویران نہ ہوتے۔ گر ہمارے نعمت خانے کا دروازہ صحیح سے بند کیا جاتا تو بلے بلیوں کی لوٹ کھسوٹ سے بچا رہتا۔

لیکن جہاں حکمران طبقے اپنے مفادات اور عیاشیوں سے آگے سوچنے کی اہلیت نہیں رکھتے تو ایسی ریاستیں سکیورٹی اسٹیٹ بن جاتی ہیں، جہاں عوام کی فلاح و بہبود ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ اور کچھ نہیں ہوتا۔


نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔