پاکستانی خواتین کارکنوں کی محنت مردوں کے برابر لیکن اجرتیں کہیں کم
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہونے والے پاکستان میں روزگار کی منڈی میں خواتین کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ انہیں مردوں جتنا کام کرنے کے باوجود تنخواہیں مردوں سے کم ملتی ہیں۔
ماہرین اقتصادیات مرد اور خواتین کارکنوں کی اجرتوں میں دونوں کا کام اور اس کی نوعیت برابر ہونے کے باوجود پائے جانے والے فرق کے لیے ''جینڈرڈ ویج گیپ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ صنفی تفریق کی بنیاد پر مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں میں یہ فرق مغربی دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک میں بھی پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں تاہم یہ مسئلہ اس لیے شدید اور فوری توجہ کا طالب ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ملازمت پیشہ خواتین کو جن کئی امتیازی سماجی اور مالیاتی رویوں کا سامنا رہتا ہے، ان میں سے صنف کی بنیاد پر کم اجرتیں ایسی ناانصافیوں کی محض ایک مثال ہیں۔
سماجی اور اقتصادی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں میں یکساں کام کے باوجود فرق کا ایک بڑا منفی پہلو یہ بھی ہے کہ معاشرہ کوئی بھی ہو اور فرق چاہے جتنا بھی ہو، زیادہ تنخواہیں ہمیشہ مردوں ہی کی ہوتی ہیں اور کم اجرتیں ہمیشہ خواتین کارکنوں ہی کو دی جاتی ہیں۔ یہ ایک ایسی حق تلفی ہے، جس کے بین الاقوامی سطح پر تدارک کی اشد ضرورت ہے۔
عالمی اقتصادی قورم کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں، جہاں پدرشاہی سماجی رویوں کے باعث پہلے ہی کام کاج کی عمر کی خواتین کی بہت کم تعداد ہی کوئی باقاعدہ ملازمت کرتی ہے، مختلف تنظیموں، کاروباری اور پیداواری اداروں میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز خواتین کا تناسب پانچ فیصد سے بھی کم بنتا ہے۔ ایسے پچانوے فیصد سے زائد عہدوں پر پاکستانی مرد فائز ہیں۔
دوسری طرف اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صنفی بنیادوں پر تنخواہوں میں پائی جانے والی خلیج اتنی وسیع ہے کہ اس وجہ سے زیادہ تر خواتین کارکنوں کو سالانہ پانچ سو بلین روپے ادا کیے ہی نہیں جاتے، جو دراصل ان کے جائز معاوضے کا حصہ ہوتے ہیں۔
پاکستان میں جینڈر کی بنیاد پر ویج گیپ یا اجرتوں میں فرق کی موجودہ صورت حال کیا ہے اور ملکی لیبر مارکیٹ میں یہ ناانصافی کیسے ختم کی جا سکتی ہے، اس بارے میں ویمن جرنلسٹس ایسوسی ایشن آف پاکستان کی بانی فوزیہ کلثوم رانا نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''جس طرح پاکستانی خواتین کی اکثریت کو خاندانی اور سماجی سطحوں پر پدر شاہی نظام کے باعث ایک قدم پیچھے رہتے ہوئے محکومیت کی زندگی گزارنا پڑتی ہے، اسی طرح پیشہ وارانہ زندگی میں بھی ہر شعبے میں مرد ہی غالب ہیں۔ جب عورت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے، تو اسے روزگار دینے والے بھی اکثر مرد ہی ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر اداروں میں اعلیٰ عہدوں پر عورتیں دکھائی ہی نہیں دیتیں۔ اسی طرح میڈیا میں بھی صورت حال قطعی غیر متوازن ہے۔ خواتین چاہے رپورٹر ہوں، کیمرہ پرسن، ایڈیٹنگ سٹاف کی رکن یا پروڈیوسر، وہ مردوں کے برے رویوں کا شکار ہوتی ہیں۔ مساوی تنخواہ کا مطالبہ کیا جائے، تو جواب ملتا ہے کہ آپ نے کون سا گھر چلانا ہوتا ہے، کپڑے ہی تو بنانا ہوتے ہیں۔‘‘
فوزیہ کلثوم رانا نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا، ''پاکستانی میڈیا میں بالعموم کوئی جینڈر پالیسی ہے ہی نہیں، حالانکہ یہ بات اشد ضروری اور انصاف کا تقاضا ہے کہ ایسی کسی واضح پالیسی کے تحت عورتوں کو بھی ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے مطابق اور مردوں کے مساوی تنخواہیں اور دیگر مراعات ملنا چاہییں۔ مگر افسوس کہ ملکی میڈیا اور پاکستانی نجی شعبے میں عورتوں کا استحصال عام ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ حکومتی سطح پر نہ صرف ایسی ایک باقاعدہ پالیسی نافذ کی جائے بلکہ اعلیٰ انتظامی عہدوں پر خواتین کا تناسب بھی بڑھایا جائے۔ یوں سبھی تو نہیں مگر کئی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔‘‘
چوبیس سال سے درس و تدریس کے شعبے سے منسلک زینب ڈار سے جب ڈی ڈبلیو نے پوچھا کہ اگر عورت بھی پورا کام کرتی ہے، تو اس کی تنخواہ کم کیوں ہوتی ہے، تو انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا، ’’یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ عورت پوری نہیں سمجھی جاتی۔ بارہا اسے باور کرایا جاتا ہے کہ وہ پوری تب ہو گی، جب اس کی شادی ہو گی یا وہ ماں بنے گی۔ یعنی مرد کے بغیر وہ نامکمل ہے۔ اس کی گواہی بھی آدھی مانی جاتی ہے اور اسے اس کےکام کا معاوضہ بھی کم دیا جاتا ہے۔‘‘
زینب ڈار نے اپنے ذاتی تجربات بیان کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''خود میرے ساتھ میرے طویل تعلیمی کیریئر میں کئی بار ایسا ہوا۔ بڑے بڑے معروف اداروں میں بھی میرا استحصال کیا گیا۔ احتجاج کرنے پر مجھے جواب یہ ملتا کہ اکثر خواتین ٹیچرز پر بہت سرمایہ کاری کی جاتی ہے، ٹریننگز وغیرہ کی صورت میں، لیکن جونہی ان کی شادی ہوتی ہے، ایسی خواتین ملازمتیں چھوڑ دیتی ہیں۔ اگر ملازمت جاری بھی رکھیں، تو انہیں بچے کی پیدائش کے موقع پر تنخواہ کے ساتھ چھٹی دینا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ کئی عورتوں پر گھریلو مسائل کا دباؤ بھی ہوتا ہے۔ تو کہا یہ جاتا ہے کہ زیادہ تر خواتین پیشہ وارانہ زندگی میں بہت پیداواری ثابت نہیں ہوتیں۔ اب میں گزشتہ کئی برسوں سے ایک نجی یونیورسٹی میں پڑھا رہی ہوں، تو مجھے ایسے استحصال کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ تو بات یہ ہے کہ جب تک خواتین اپنے حقوق کے لیے خود آواز نہیں اٹھائیں گی، یہ مسائل جاری رہیں گے۔‘‘
زینب ڈار نے مزید کہا، ''اداروں کو یہ باور کرانا بھی ضروری ہے کہ وہ تنخواہ طے کرتے ہوئے کسی کارکن کے مرد یاعورت ہونے کو نہ دیکھیں بلکہ ان کی کارکردگی، تجربے اور صلاحیت کو دیکھیں۔ اکثر کسی بینک میں جاتے ہی کوئی حسین لڑکی سامنے نظر آئے گی، کسی فائیو سٹار ہوٹل میں استقبالیے پر بھی حسین خواتین نظر آئیں گی۔ مطلب عورتوں کو ''شو پیس‘‘ کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس سوچ کو سماجی سطح پر بدلنے کی ضرورت ہے۔‘‘
پاکستان میں گزشتہ دس سال سے بینکنگ کے شعبے سے منسلک سعدیہ خان (فرضی نام) نے ڈی ڈبلیو کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، ''اس تعفن زدہ معاشرے میں جہاں پدر شاہی کا راج ہے، خواتین کی تنخواہیں مردوں کے برابر کیسے ہو سکتی ہیں؟ اول تو ملازمتیں دیتے ہوئے بھی لڑکیوں کو سنجیدہ کارکن نہیں سمجھا جاتا۔ پھر ان کو تنخواہیں بھی مردوں سے کم دی جاتی ہیں، حالانکہ ان کی تعلیم، تجربہ اور قابلیت بھی مردوں کے برابر ہوتے ہیں۔ بینکوں میں خواتین کارکنوں کی شرح تقریباً تیس فیصد بنتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ماضی میں تجربہ کار اور ماہر خواتین کا دستیاب ہونا مشکل ہوتا تھا۔ لیکن اب تو تقریباً ہر شعبے میں بہترین کارکردگی کی حامل خواتین موجود ہیں، تو پھر یہ مالی استحصال کیوں؟‘‘
سعدیہ خان نے مزید کہا، ''ایک بڑا مسئلہ پرچی سسٹم بھی ہے۔ بینکوں میں جاب اکثر کسی پرچی سے ہی ملتی ہے۔ یہ پرچی لکھنے والا بھی کوئی مرد ہی ہوتا ہے اور جس کے نام لکھی جائے، وہ بھی کوئی مرد ہی ہوتا ہے۔ بینکوں میں اکثر کم تنخواہ پر لڑکیوں کو بطور کسٹمر ریلیشنز آفیسر رکھا جاتا ہے اور انہیں مسکرا مسکرا کر بات کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ کچھ ایسے بینک تھے، جن میں تو چند برس قبل تک خواتین کو بھرتی کیا ہی نہیں جاتا تھا۔ لیکن جب سے سینٹرل بینک آف پاکستان نے گزشتہ تین سال سے پچاس فیصد تک خواتین کی بھرتی کی مہم شروع کی ہے، تب سے بینک خواتین کو بھرتی کر رہے ہیں، لیکن کم معاوضوں پر۔ مگراہم بات یہ ہے کہ جب مرد اور عورت دونوں کے کام کا دورانیہ برابر ہے، کام کی نوعیت اور محنت بھی، تو پھر دونوں کی تنخواہیں مساوی کیوں نہیں؟‘‘
حقوق نسواں کی کارکن اور صنفی امور کی ماہر سیدہ مجیبہ بتول نے اس موضوع پر اظہار رائے کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان میں صنفی بنیادوں پر اجرتوں میں فرق کی موجودہ اوسط شرح چونتیس فیصد بنتی ہے جبکہ عالمی سطح ہر یہی اوسط فرق تیئیس فیصد بنتا ہے۔ اس تفریق کا منفی اثر معاشی خوشحالی اور انسانی ترقی دونوں پر پڑتا ہے۔ یہ فرق خواتین کو ان کے اس اقتصادی استحکام سے دور رکھتا ہے، جو ان کا جائز حق ہوتا ہے۔ سماجی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ معاشی طور پر بااختیار خواتین اپنے بچوں کی صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور بہتر خوراک کے لیے زیادہ وسائل مختص کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے بھی اجرتوں کے اس فرق کو دور کرنا بہت ضروری ہے۔ پاکستان میں مردوں اور عورتوں کی اجرتوں میں یہ فرق بڑے متنوع عوامل کا نتیجہ اور مجموعی طور پر ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ یہ فرق ان پدرشاہی اور مذہبی اثرات کا نتیجہ بھی ہے، جو معاشرتی اصولوں اور رویوں کی تشکیل کرتے ہیں۔‘‘
مجیبہ بتول نے مزید کہا، ''آجروں کی طرف سے صنفی بنیادوں پر امتیازی سلوک ملازمتوں، ترقیوں اور تنخواہوں سے متعلق متعصبانہ فیصلوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ کام کے بعد گھریلو زندگی میں بزرگوں کی دیکھ بھال اور کام کا بوجھ بھی زیادہ تر خواتین ہی اٹھاتی ہیں۔ ان حالات میں ناکافی قانونی تحفظات، امتیازی سلوک کے خلاف قوانین کا کمزور نفاذ اور روزگار کی جگہوں پر صنفی انصاف کو یقینی بنانے والی پالیسیوں کی کمی بھی صنف کی بنیاد پر ویج گیپ ختم کرنے کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
صنفی امور کی ماہر مجیبہ بتول کے مطابق ان تمام چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ایسی ٹارگٹڈ پالیساں بناناچاہییں، جو اجرتوں میں تفریق کو باقاعدہ ہدف بنا کر اس کا خاتمہ کر سکیں۔ اس عمل کے دوران ملکی لیبر قوانین کو بھی مزید منصفانہ اور مضبوط بنانا ہو گا جبکہ ان کے درست نفاذ کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہو گی۔ اس نانصافی کا مقابلہ اور جامع اور مؤثر لائحہ عمل کے بغیر ممکن نہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔