’ہم اب بھی موجود ہیں‘: افغان خواتین اُمید کا دامن نہیں چھوڑتیں
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد متعدد افغان بااثر خواتین اپنا ملک چھوڑ کر غریب الوطنی اختیار کرنے پر مجبور ہوئیں لیکن انہوں نے اپنے ملک میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کر رکھا ہے
'ہم اب بھی مودجود ہیں‘، یہ دراصل عنوان ہے اُس کتاب کا، جس کی مصنفہ ہیں ناہید شاہ عالیمی اور یہ ایک فنکارہ بھی ہیں۔ یہ اپنی ہم وطن افغان خواتین کے طالبان کے خلاف احتجاج کی قیادت کرتی رہی ہیں۔ مصنفہ ناہید جرمنی میں رہتی ہیں اور انہوں نے اپنی اس کتاب میں 13 ایسی خواتین کے انٹرویوز شامل کیے ہیں، جو اپنے وطن میں سیاست، کاروبار اور ثقافت کے شعبے میں اہم کردار ادا کرتی آئی ہیں اور یہ تمام خواتین بااثر مانی جاتی ہیں۔ رضیہ بارکزئی بھی انہی خواتین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے اگست 2021ء میں سقوط کابل کے فوراً بعد ہی اپنے حقوق کے تحفظ کا بیڑا اُٹھایا تھا اور طالبان حکومت کے خلاف احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ فی الوقت رضیہ بارکزئی کو افغانستان میں جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا ہے اس لیے وہ اپنے وطن کے کسی نامعلوم مقام پر زندگی بسر کر رہی ہیں۔
بارکزئی افغانستان کے سابق صدارتی عملے کی ایک رکن رہ چُکی ہیں۔ یہ طالبان کی طرف سے خواتین کے مظاہروں کو کچلنے کے لیے کیے جانے والے بہیمانہ سلوک اور بربریت کی اندوہناک کہانیاں سناتی ہیں۔ ان کے بقول رائفل بٹس، مرچوں کا اسپرے، آنسو گیس، بجلی کے جھٹکے، کوڑے۔۔۔۔ مظاہرین کو منتشر کرنے اور انہیں دوبارہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنے سے باز رکھنے کے لیے ڈرانے دھمکانے کے لیے کون کون سے حربے استعمال نہ کیے گئے۔
جلاوطن اور پوشیدہ
مذکورہ کتاب کی مصنفہ اور فنکارہ ناہید شاہ عالیمی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ گزشتہ ستمبر سے انہوں نے افغانستان میں جن جن خواتین کے انٹرویو کیے ان میں سے محض ایک رضیہ باراکزئی ہیں جو ہنوز افغانستان میں موجود ہیں۔ ناہید کے بقول رضیہ اور ان کی مہم میں ان کا ساتھ دینے والی دیگر خواتین گرچہ پہلے ہی افغانستان سے نکلنے کا راستہ ڈھونڈ چُکی تھیں اور رضیہ کو بھی افغانستان سے نکالنا چاہتی تھیں مگر رضیہ افغانستان میں ہی رہنا چاہتی تھیں کیونکہ ان کے والدین وہیں ہیں اور وہ اپنے ماں باپ کو تنہا نہیں چھوڑنا چاہتیں۔ تب سے رضیہ کئی افغان شہروں میں رہیں اور ایران بھی گئی تھیں تاہم اب وہ واپس اپنے ملک افغانستان آ گئی ہیں اور وہیں کہیں روپوش ہیں۔
ناہید کا کہنا ہے کہ سیاسی طور پر سرگرم خواتین کے لیے طالبان کے ہاتھوں سراغ لگائے جانے اور ممکنہ طور پر جان سے مار دیے جانے کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جن جن خواتین سے ناہید نے بات کی اور ان کا انٹر ویو کیا، ان میں سے تقریباً سبھی نے افغانستان چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان میں ''موومنٹ آف چینج فور افغانستان پارٹی‘ کی بانی اور سابق ممبر پارلیمان فوزیہ کوفی بھی شامل ہیں۔ یہ دوحہ میں 2020 ء میں طالبان کیساتھ ہونے والے امن مذاکرات میں بھی حصہ لے چُکی ہیں۔ اس وقت وہ دوحہ میں ہی مقیم ہیں۔ ان کی بھی کہانی نہایت افسوسناک ہے۔ یہ افغانستان میں خود پر ہونے والے حملے میں بال بال بچ گئی تھیں مگر ان کے والد، بھائی اور شوہر حملوں میں ہلاک ہو چُکے ہیں۔
مایوس نسل
آریانہ سعید افغانستان کے فنکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ 1985ء میں اپنے والدین کے ساتھ افغانستان سے فرار ہو کر اور نہایت پُرپیچ اور کٹھن راستوں سے گزرتے ہوئے لندن پہنچی تھیں جہاں سے وہ 2011ء میں واپس افغانستان چلی گئی تھیں۔ آریانہ دو قومی زبانوں یعنی دری اور پشتو میں گلو کاری کرتی ہیں۔ اپنے قومی اتحاد کے لیے ان کی دونوں زبانوں سے وابستگی بھی طالبان کے لیے ناپسندیدہ اور ناقابل برداشت ہے کیونکہ طالبان کے تقریباً تمام اراکین پختون ہیں اور پشتو ان کی زبان ہے۔ ان کے خلاف نفرت اور دشمنی میں بہت زیادہ اضافہ اُس وقت سے ہوا جب وہ ''دا وزائس آف افغانستان‘‘ شو کے لیے تشکیل کردہ جیوری کی ممبر بنیں۔ 2013ء میں افغانستان کے 12 مذہبی اسکالرز نے ایک فتویٰ جاری کیا، جس کے تحت فنکاروں کو واجب قتل قرار دیتے ہوئے انہیں مار ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا۔
ناہید شاہ عالیمی نے اپنی کتاب میں حوالے دیتے ہوئے طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔ وہ تحریر کرتی ہیں،'' ایک نئی نسل، نام نہاد آزادی کی نسل، آہستہ آہستہ اس امر پر آمادہ ہو ہی گئی کہ وہ اب ایک معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہی۔ عام افغان باشندوں کو اب قیدیوں کی طرح رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ آریانہ سعید تاہم اس صورتحال سے بچنے میں کامیاب ہوئیں۔ طالبان کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ہی وہ ملک چھوڑنے اور ایک امریکی فوجی طیارے میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں تھیں۔
’’طالبان کو بھی سیکھنا ہو گا‘‘
مصنفہ ناہید شاہ عالیمی اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں کہ اس کتاب پر کام کرتے ہوئے انہیں اپنی زندگی کی مشکل ترین اور تکلیف دہ ترین گفتگو کرنا پڑی۔ اس کے باوجود ان کا افغانستان کے مستقبل پر یقین مزید مستحکم ہوتا گیا۔ ان کے اس حوصلے اور امید کا ذریعہ کیا ہے؟ ایک تو خواتین کا کچھ نا کچھ حاصل کرنے کا وہ عزم جس کا اندازہ ان کے ساتھ گفتگو کے دوران ناہید کو ہوا، دوسرے مغربی ریاستوں کے طالبان کے ساتھ مسلسل مذاکرات جن میں طالبان سے خواتین کے حقوق کے احترام کی یقین دہانی کرانے کی بات کی جاتی رہی ہے۔
ایک اور امر جس سے ناہید کو امید ہے کہ ان اور دیگر افغان خواتین کی جدوجہد کا کچھ نا کچھ نتیجہ برآمد ہو گا، جس کا ذکر انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کیا، وہ یہ ہے، ان کے بقول،'' طالبان اب یہ سبق حاصل کر چُکے ہیں کہ روزمرہ زندگی میں خواتین کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔‘‘ اس کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہوائی اڈوں پر سکیورٹی عملے کے لیے خواتین کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ خواتین مسافروں کی چیکنگ کے لیے خواتین ہی درکار ہوتی ہیں۔
دیرینہ خواہش
ناہید نے اپنے احساسات و جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ بس اتنی امید کرتی ہیں کہ،''طالبان بین الاقوامی برادری کے وضع کردہ شرائط اور معیارات کے دباؤ میں کم از کم افغان باشندوں کی بات سنیں گے، جن میں افغان خواتین بھی شامل ہیں۔‘‘ ناہید کا کہنا ہے کہ صرف افغان باشندے ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ان کا کیا ہونا ہے، مستقبل کیا ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا،''مجھے امید ہے کہ ان چھوٹے چھوٹے اقدامات سے ہمارا ملک کم از کم معمول کی زندگی کی طرف لوٹ سکے گا۔ گرچہ یہ بہت سے افغان باشندوں کے اصل خواب سے بہت دور کی بات ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔