جنوبی کوریا میں اسٹاکنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات، خواتین شدید پریشان
جنوبی کوريائی خواتین نے شکایت کی ہے کہ ملک ميں کمزور قوانین اور پدر شاہی معاشرے کی وجہ سے انہیں خطرہ ہے کہ خواتين کو برابر نہ سمجھنے والے مرد، انہيں نشانہ بنا سکتے ہيں۔
جنوبی کوریائی دارالحکومت سیئول کی پولیس نے ابھی حال ہی میں جیئون جو ہوان نامی ایک شخص کو حراست میں لیا۔ اس پرایک خاتون کا تعاقب کرنے اور بعد ازاں اسے ایک پبلک ٹوائلٹ میں خنجر سے حملہ کر کے قتل کرنے کا الزام ہے۔ اس واقعے پرعوام کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔
اس سلسلے میں پولیس اور عدالتی نظام پر اس لیے شدید تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ وہ مقتولہ کو تحفظ دینے میں ناکام رہے تھے۔ اٹھائیس سالہ مقتولہ نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران دو مرتبہ جیئون کے خلاف رپورٹ درج کرائی تھی اور قاتل اس کے باوجود بہت آسانی سے اسے ہراساں کرتا رہا۔
اس واقعے کے ایک ہفتے بعد قتل کی یہ خبر منظر عام سے تقریباً غائب ہو چکی تھی اور شہری اسے صرف ایک جنونی کے عشق، مسترد کیے جانے اور ایک نوجوان خاتون کے قتل کا واقعہ سمجھ کر بھول چکے تھے۔ لیکن کوریائی خواتین کی ایک بڑی تعداد کے لیے یہ صرف ایک واقعے سے بڑھ کر تھا۔
اس واقعے کی ابتدا اس وقت سے ہوتی ہے، جب تین سال قبل جیئون سیئول میٹرو میں نوکری شروع کی تھی۔ اس شہر کا سبوے نظام اسی کمپنی کے ہاتھوں میں ہے۔ اس نوکری کے دوران ہی قاتل کا اس خاتون سے پہلی مرتبہ سامنا ہوا تھا۔ مقتولہ کی شناخت کو مخفی رکھنے کے لیے اس کے نام کو اس رپورٹ میں ظاہر نہیں کیا گیا۔
جیئون کو اپنی ساتھی کولیگ سے یکطرفہ انسیت تھی اور پھر اس نے اسے بار بار فون کر کے اور پیغامات بھیج کر ہراساں کرنا شروع کیا۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کی ویڈیو بھی بنائی۔
پولیس میں رپورٹ
اس خاتون نے یہ ساری روداد اپنے آجر ادارے اور پولیس کو بتائی۔ اس کے بعد جیئون کو نوکری سے نکال دیا گیا اور پندرہ ستمبر کو اسے عدالت میں طلب کیا گیا تاکہ وہ اسٹاکنگ کے الزامات کا سامنا کرے۔ اگر اس پر تعاقب کرنے کے الزامات ثابت ہو جاتے تو اسے نو سال تک کی قید ہو سکتی تھی۔
اس خاتون کی بار بار درخواست کے باوجود پولیس نے عدالتی کارروائی شروع ہونے سے قبل جیئون کو حراست میں رکھنے سے انکار کر دیا۔ پولیس کا موقف تھا کہ جیئون سے اس خاتون کو بہت کم یا نہ ہونے کے برابر خطرہ ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ جس دن اکتیس سالہ جیئون کو سزا سنائی جانی تھی، اس سے ایک دن قبل وہ مرکزی سیئول کے 'سنڈانگ‘ نامی ریلوے اسٹیشن گیا، جہاں وہ خاتون کام کیا کرتی تھی۔ اس پر یہ الزام بھی ہے کہ اس موقع پر وہ خاتون کو خنجر کے زور پر اسٹیشن کے ٹوائلٹ میں لے گیا اور وہاں اسے وار کے کر قتل کر دیا۔
تاہم اپنی گرفتاری کے بعد اس نے کہا، ''میں نے پاگل پن والی ایک حرکت کی ہے، جس پر میں معذرت خواہ ہوں‘‘۔
امتیازی رویہ
ٹوکیو یونیورسٹی میں صنف اور شناخت کے شعبے کی ایک پروفیسر جیکی کم واشٹکا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابتدائی طور پر کوریائی معاشرے اور خاص طور پر خواتین کو صدمہ لگا تھا۔ ان کے بقول وقت گزرنے کے ساتھ اس احساس کی شدت میں کمی آئی اور کچھ دن بعد صرف یہ کہا جانے لگا، ''اوہ ایک اور واقعہ‘‘۔ پروفیسر کا مزید کہنا ہے کہ اس میں غصے سے زیادہ پریشانی محسوس کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، ''میرے خیال میں کوریائی معاشرہ اس وقت صنفی تفریق کے سنجیدہ مسئلے کا شکار ہے۔ اس تفریق کا تعلق ایک عرصے سے روایتی طور پر محروم رکھی جانے والی ان خواتین سے ہے، جو اپنی سالوں کی سخت جدوجہد کے بعد کچھ حقوق حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں۔‘‘
قتل کرنے کا رجحان
نیشنل یونیورسٹی میں کوریائی سیاست کا موضوع پڑھانے والی پروفیسر ہائیوبن لی نے کہا کہ تعاقب کے بعد قتل کرنے کے متعدد واقعات رونما ہونے کے باوجود قانون ميں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی اور خدشہ ہے کہ اس طرح کے جرائم مزید بڑھیں گے۔ ان کے بقول اس مسئلے کے بڑھنے کی ایک وجہ تعاقب یا اسٹاکنگ کرنے والے اورجنسی ہراسانی کے مرتکب افراد کے لیے کمزور سزائیں بھی ہیں، ''پہلی مرتبہ اسٹاکنگ کرنے والے کو تین سال قید یا اکیس ہزار یورو کے برابر کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ 1990ء میں اسٹاکنگ کے خلاف قانون تجویز کیا گیا تھا تاہم اسے نافذ کرنے میں بائیس سال کا عرصہ لگا۔ جنوبی کوریا میں 2015ء میں اسٹاکنگ کے 363 رپورٹ ہوئے جبکہ 2019ء میں ایسے واقعات کی تعداد بڑھ کر 583 ہو چکی تھی۔
اس دوران سیئول حکومت نے اسٹاکنگ کے قوانین کو سخت بنانے کا اعلان کیا ہے اور وزیراعظم کے بقول اس سلسلے میں کابینہ سے مشاورت جاری ہے۔ تاہم دوسری جانب خواتین خود اپنی حفاظت کے لیے اضافی اقدامات بھی کر رہی ہیں۔مقامی میڈیا کے مطابق حالیہ دنوں کے دوران پرسنل آلارم اور مرچوں والے سپرے کی فروخت بھی بڑھ گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔