یوکرینی خواتین فوجیوں کی طرف سے امتیازی سلوک کی شکایت

اس وقت یوکرینی فوج میں 42,000 خواتین خدمات انجام دے رہی ہیں، جن میں سے تقریباً 5000 محاذ پر ہیں۔ 2018 سے خواتین باضابطہ طور پر فوج میں خدمات انجام دے رہی ہیں لیکن امتیازی سلوک اب بھی ایک مسئلہ ہے۔

یوکرینی خواتین فوجیوں کی طرف سے امتیازی سلوک کی شکایت
یوکرینی خواتین فوجیوں کی طرف سے امتیازی سلوک کی شکایت
user

Dw

لیسیا گانزا نے 24 فروری 2022ء کو یوکرین کے خلاف روس کی جارحیت کے آغاز پر ہی یوکرینی فوج میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ انہیں کییف اور خارکییف کے علاقوں میں خدمات انجام دینے کے لیے تعینات کیا گیا۔ تاہم گانزا کے بقول، ''بدقسمتی سےکمپنی کمانڈر واضح طور پر خواتین مخالف تھے۔‘‘ اس خاتون فوجی کا کہنا تھا کہ وہ فوج کے ایک مختلف بریگیڈ میں فضائی جاسوسی کا کام کرنا چاہتی تھیں، ''میں نے یوکرین کے دفاع کی لڑائی کے لیے فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔‘‘

انہوں نے ڈی ڈبلیوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بار بار ملک کے اندرونی علاقوں میں ڈیوٹی کی پیشکش کی گئی لیکن آخر کار وہ ڈونیٹسک میں ایک بریگیڈ کے فضائی جاسوسی یونٹ میں تعیناتی میں کامیاب ہو گئیں۔


28 سالہ یولیا مائکتینکو روسی حملے سے قبل ہی یوکرینی فوج میں ایک آرمی آفیسر تھیں۔ انہوں نے 2016 میں فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور وہ بھی جاسوسی کے شعبے میں کام کرنے کی خواہشمند تھیں لیکن ان کی جنس کی وجہ سے انہیں اس کام کے لیے مسترد کر دیا گیا۔

فوجی عملے میں انتظامی کردار ادا کرنے کے بعد مائکتینکو نے بالآخر اعلیٰ افسر کی تربیت مکمل کی اور سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے تک پہنچ گئیں۔ انہوں نے وہ وقت یاد کرتے ہوئے کہا، ''جب مجھے ایک جاسوس دستے کی کمان سونپی گئی تو وہاں خدمات انجام دینے والے 80 فیصد لوگوں کا صرف اس لیے دوسری جگہوں پر تبادلہ کر دیا گیا کہ ان کی کمانڈر ایک خاتون تھی۔‘‘


’سرکاری طور پرجنگی مشن پرتمام عہدے خواتین کے لیے کھلے ہیں‘

یوکرین کی مسلح افواج میں صنفی مساوات کے لیے مہم چلانے والے شہری حقوق کے منصوبے ''ان ویزیبل بٹالین‘‘ کی ہانا ہریتسینکو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یوکرینی خواتین 2014 سے فرنٹ لائن پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس غیر سرکاری تنظیم کا تحقیقی گروپ فوج میں خواتین کی صورت حال کا جائزہ لیتا اور ان کے مسائل اجاگر کر کے ان کے حل تلاش کرتا ہے۔

ہریتسینکو کا کہنا تھا، ''جنگی کارروائیوں سے متعلق زیادہ تر عہدوں کو خواتین کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔ خواتین پھر بھی متعلقہ فرائض کسی اندراج اور ان کاموں کے لیے مختص تنخواہ اور دیگر سماجی ضمانتوں کے بغیر انجام دے رہی تھیں۔ ان کا باضابطہ طور پر اندراج کُک یا درزی جیسے عہدوں پر کیا گیا تھا۔‘‘


ان کا مزید کہنا تھا، ''اگر خواتین زخمی ہوجاتیں تو یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ لڑائی کے دوران کیا کر رہی تھیں۔ عوامی دباؤ بالآخر اس قانون میں تبدیلی کا باعث بنا اور آخر کار 2018 میں خواتین کو باضابطہ طور پر جنگی مشنوں میں خدمات انجام دینے کی اجازت دی گئی۔

جب یولیامائکتینکو نے 2017 میں جاسوسی یونٹ کی کمان سنبھالی تو انہوں نے اپنے ساتھیوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں ہر مشن پر ہمیشہ خود موجود رہتی تھی۔ اس طرح میں نے آہستہ آہستہ اپنا نام روشن کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''کچھ وہ لوگ جو واضح طور پر میرے مخالف تھے بعد میں واپس میرے زیر کمان دستے میں آگئے۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک خاتون کمانڈر کے ساتھ یونٹ میں خدمات انجام دینا اتنا برا بھی نہیں تھا۔‘‘


دوران ڈیوٹی جنسی ہراسانی

مائکتینکو کا کہنا تھا کہ ان کے کیرئیر کے آغاز میں ان کے مرد ساتھیوں نے نامناسب لطیفے اور اشارے کیے تھے: ''جب ایسا ہوا تو مجھے سخت سے سخت ردعمل کا اظہار کرنا پڑا کیونکہ اس سے نمٹنے کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں تھا۔ میرے شوہر بھی فوج میں تھے۔ انہوں نے مشورے دے کر میری مدد اور جذباتی طور پر میری حمایت کی اور جسمانی طور پر بھی میری حفاظت کی۔‘‘

تاہم مائکتینکو کے مطابق جب ان کے شوہر مارے گئے تو کئی افسران نے مکمل طور پر نامناسب ریمارکس دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہی ایک وجہ تھی کہ انہوں نے اپنا تبادلہ دوسری جگہ کروا لیا۔ لیسیاگانزا کا خیال ہے کہ وہ اپنی عمر کی وجہ سے ہراساں کیے جانے سے محفوظ ہیں۔ انہوں نے کہا، ''نوجوان خواتین اپنے طریقے سے اپنا دفاع کرتی ہیں۔‘‘انہوں نےمزید کہا کہ ایک نوجوان خاتون نے انہیں بتایا کہ اسے ہراساں کیا گیا ہے۔ اس کے کمانڈر نے پہلے ہی دن اس پر ڈورے ڈالنا چاہے، جسے اس خاتون نے مسترد کر دیا۔ یہ معاملہ ختم ہو گیا۔ لیکن گانزا کے بقول،''میں جانتی ہوں کہ ایک اور کمپنی میں معاملات اس سے زیادہ سنگین تھے اور ایک نوجوان خاتون کو ہراسانی کی وجہ سے ایک دوسری کمپنی میں منتقل ہونا پڑا۔‘‘


انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں ان خواتین فوجیوں کی مدد کرتی ہیں جنہیں جنسی طور پر ہراساں کیا گیا ہو۔ ان ویزیبل بٹالین کی ہریتسینکو نے کہا، ''ہم نے بہت سے لوگوں سے بات کی، جنہوں نے ہمیں ایسے کیسز کے بارے میں گمنام معلومات فراہم کیں۔ لیکن ہمیں ابھی تک متاثرین کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے۔‘‘ 2019 سے نوجوان خواتین کو یوکرین میں ملٹری اکیڈمیوں میں داخلے کی اجازت دی گئی۔

اپنی حالیہ رپورٹ میں ان ویزیبل بٹالین کے محققین نے ایک اور مثبت پیش رفت نوٹ کی کہ اب زیادہ سے زیادہ خواتین افسر کے عہدے پر پہنچ رہی ہیں۔ 2014 میں یوکرین کی فوج میں 1,600 سے کچھ زیادہ خواتین افسران تھیں اور آج یہ تعداد 5000 سے زائد ہے۔ سن2021 میں ٹیٹیانا اوستاشینکو کو یوکرینی فوج میں پہلی خاتون جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر میڈیکل فورسز کی کمانڈر بنایا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔