بھارت: مسلمانوں کے لیے مکانوں کا حصول مشکل تر ہوتا ہوا

بھارت کے شہروں میں کرایے پر مکان دینے یا فروخت کرنے میں تفریق کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے لیکن ملک میں حالیہ برسوں کے دوران بڑھتی مذہبی تفریق کے سبب مسلمانوں کے لیے صورت حال مزید مشکل ہو گئی ہے۔

بھارت: مسلمانوں کے لیے مکانوں کا حصول مشکل تر ہوتا ہوا
بھارت: مسلمانوں کے لیے مکانوں کا حصول مشکل تر ہوتا ہوا
user

Dw

عبدالرووف بھارت کے قومی دارالحکومت دہلی میں پچھلے دو ماہ سے کرایے کا مکان تلاش کر رہے ہیں لیکن انہیں ابھی تک کامیابی نہیں ملی ہے۔ تاہم یہ صرف دہلی یا عبدالرووف کی کہانی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لیے کسی مخلوط علاقے میں مکان حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔

اتوار کا دن ہے اور دوپہر کے بارہ بج رہے ہیں۔ دہلی کے مالویہ نگر محلے میں ایک پارک کے قریب کھڑے عبدالرووف گنائی کرایے پر مکان دلوانے والے ایک ایجنٹ کا انتظار کر رہے ہیں۔ 28 سالہ عبدالرووف جنوبی دہلی میں رہنے کے لیے کرایے پر ایک مکان تلاش کرنے کی پچھلے کئی ہفتوں سے کوشش کر رہے ہیں۔


ایجنٹ نے انہیں یقین دلایا ہے کہ آج فلیٹ مل ہی جائے گا۔ ایجنٹ آتا ہے اور عبدالرووف کو ساتھ لے کر قریب ہی واقع ایک مکان پر جاتا ہے۔ گھنٹی بجنے کے دو منٹ بعد مکان کا مالک خود دروازہ کھولتا ہے اور وہیں کھڑے کھڑے ابتدائی پوچھ گچھ شروع کر دیتا ہے۔ لیکن بات چیت زیادہ دیر تک نہیں چلتی کیونکہ عبدالرووف کا نام سنتے ہی مکان مالک پوچھتا ہے،"محمڈن ہو؟" اور جواب "ہاں" میں ملتے ہی جھٹ سے کہتا ہے "ہم محمڈنز کو مکان کرایے پر نہیں دیتے۔"

اس کے ساتھ ہی وہ ایجنٹ کو بھی ڈانٹ دیتا ہے کہ اس کے بارے میں وہ پہلے ہی بتا چکا تھا پھر بھی "ایک محمڈن" کو لے کر کیوں چلا آیا۔ ایجنٹ مکان مالک اور عبدالرووف دونوں سے معذرت کرتا ہے اور پھر عبدالرووف کو لے کر ایک اگلے مکان پر دستک دینے کے لیے بڑھ جاتا ہے۔ یکے بعد دیگر مختلف مکانات پردستک دینے میں چھٹی کا پورا دن گذر جاتا ہے لیکن عبدالرووف مکان تلاش کرنے کی مہم میں کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں۔


شرنارتھیوں کا محلہ

دہلی کا مالویہ نگر جنگ آزادی کے ایک رہنما مدن موہن مالویہ کے نام پر تقسیم ملک کے بعد پاکستان سے آئے شرنارتھیوں کو پناہ دینے کے لیے بسایا گیا تھا۔ یہاں کے بیشتر مکانات کا یہی پس منظر ہے۔ حکومت نے لوگوں کو تقریباً 100 گز کے پلاٹ دیے تھے جس پر انہوں نے دھیرے دھیرے تین اور چار منزلہ عمارتیں کھڑی کرلیں۔

تاہم سات دہائی قبل زمین کے جس ٹکڑے پر تقسیم وطن کے متاثرین کو پناہ ملی تھی اسی جگہ تعمیر مکانات آج اپنے ہی ملک کے شہریوں کے لیے دروازے کھولنے کو تیار نہیں ہیں۔


ایک تو مسلمان اس پر کشمیری

عبدالرووف میڈیا اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور دہلی میں ڈی ڈبلیو کے لیے ویڈیو جرنلسٹ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ عام طور پر کرایے پر مکان دینے کے لیے کسی شخص کو خود کو معتبر ثابت کرنے کے لیے اتنا کافی ہونا چاہئے۔ لیکن اگر آپ مسلمان ہیں تو ایسا نہیں ہے۔ عبدالرووف گنائی کے ساتھ دوہرا مسئلہ ہے۔ وہ مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری بھی ہیں اور بھارت کے شہروں میں مکان کرایے پر نہیں دینے کے لیے یہ ایک اور پیمانہ ہے۔

عبدالرووف کہتے ہیں کہ انہوں نے کئی برس قبل مسلمانوں کے خلاف اس طرح کی تفریق کے بارے میں صرف ٹوئٹر پر پڑھا تھا۔ لیکن انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن ان کے ساتھ بھی یہی سب کچھ ہوگا۔ انہیں سن 2018 میں پہلی مرتبہ حیدرآباد میں اس تفریق کا تجربہ ہوا، جب شہر کے ایک ہندو اکثریتی علاقے میں ایک مکان مالک نے ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ انہیں اپنا مکان کرایے پر نہیں دیں گے کیونکہ وہ مسلمان ہیں۔


عبدالرووف کہتے ہیں،"میں بہت ڈر گیا تھا۔ میں پہلی مرتبہ کشمیر سے باہر نکلا تھا اور یہ میری پہلی ملازمت تھی۔ ایک دن تو میں نے طے کرلیا کہ اگر آج شام تک کوئی مکان نہیں ملا تو میں شہر اور ملازمت دونوں چھوڑ کر واپس کشمیر چلا جاوں گا۔"

بہر حال خوش قسمتی سے ملازمت چھوڑنے کی نوبت نہیں آئی۔ انہوں نے حیدرآباد میں پہلے سے ہی مقیم کچھ کشمیریوں سے رابطہ کیا اور پھر ان کی مدد سے انہیں سر چھپانے کے لیے جگہ مل گئی۔ اس بات کو چار برس گزر چکے ہیں اور شہربھی تبدیل ہوچکا ہے لیکن عبدالرووف کے سامنے ایک بار پھر وہی مصیبت کھڑی ہوگئی ہے۔


اب تو آنکھوں کا پانی بھی مرگیا ہے

عبدالرووف اس پریشانی کا سامنا کرنے والے واحد یا پہلے مسلمان نہیں ہیں۔ یہ سلسلہ عشروں سے جاری ہے اور شہروں میں کرایے پر مکان تلاش کرنے والے یا ملی جلی آبادی والے علاقوں میں مکان خریدنے والے ہر مسلمان کی یہی کہانی ہے۔ اس صورت حال پر کئی تحقیقات بھی کی جاچکی ہیں۔

'دی ہاوسنگ ڈسکریمینیشن پروجیکٹ' کے تحت قانون، سماجیات اور عمرانیات جیسے مختلف شعبوں سے وابستہ محققین نے 2017 سے 2019 کے درمیان دہلی اور ممبئی کے 14محلوں میں تقریباً 200 ایجنٹوں، 31 مکان مالکان اور تقریباً 100 مسلم کرایے داروں سے بات چیت کی تھی۔


سروے میں نہ صرف یہ بات ثابت ہوئی کہ یہ ایک بڑا مسئلہ ہے بلکہ یہ بات بھی سامنے آئی کہ کرایے پر مکان دلانے کے سسٹم میں کلیدی کردار ادا کرنے والے کاروباری ایجنٹوں میں سے بھی بہت سے اس طرح کی تفریق کرتے ہیں۔

مصنف، فلم ساز اور اپنی 'ہیریٹیج واک' کے ذریعہ دہلی کی تاریخ سے لوگوں کو آگاہ کرانے والے سہیل ہاشمی بتاتے ہیں کہ انہیں اس تفریق کا سامنا پہلی مرتبہ 1980 کی دہائی میں ہوا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ فرق صرف اتنا ہوا ہے کہ اس وقت لوگوں کی 'نگاہوں میں شرم' تھی جس کی وجہ سے کوئی صاف صاف انکار نہیں کرتا تھا کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے مکان نہیں دیا جائے گا۔


ہاشمی بتاتے ہیں کہ صاف صاف جواب دینے کے بجائے وہ،"آپ تو گوشت کھاتے ہوں گے" یا "ہم تو آ پ کو ہی مکان دینے والے تھے لیکن اچانک میرے بھائی نے نیویارک سے واپس لوٹنے کا فیصلہ کرلیا" جیسے بہانے بناکر مسلمانوں کو ٹال دیا کرتے تھے۔

گھیٹوائزیشن کا سبب

اس مسئلے نے ہندو اور مسلمانوں کی الگ الگ بستیوں (گھیٹوائزیشن) کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ اس مسئلے کا شکار ہوچکے سینیئر بھارتی صحافی مہتاب عالم کہتے ہیں،"آج آپ جن بستیوں کو مسلمانو ں سے جوڑ کر انہیں "مسلم گھیٹو'' کہتے ہیں وہ محلے تو اسی وجہ سے بسے ہیں کیونکہ ان مسلمانوں کو دوسری بستیوں میں رہنے والوں نے اپنے مکانات نہیں دیے۔ "


بہر حال جنوبی دہلی کے حوض خاص علاقے میں واقع اپنے دفتر کے قریب مکان تلاش کرتے کرتے عبدالرووف گنائی کو دو ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن وہ آج بھی دفتر سے دور اپنے ایک دوست کے مکان میں رہنے کے لیے مجبور ہیں۔

عبدالرووف نے تھک کر کچھ دنوں کی چھٹی لے لی ہے اور کشمیر جارہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ واپس آنے کے بعد جوش اور جذبے سے مکان کی تلاش کا سلسلہ شروع کریں گے۔ دیکھئے کب تک کامیابی مل پاتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔