سیکورٹی کیمرہ، کیا چین کو حساس معلومات تک رسائی حاصل ہے؟

ہوائی اڈہ ہو یا ٹرین اسٹیشن اب نگرانی کرنے والے کیمرے ہر جگہ نصب ہیں۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر کیمرہ چینی کمپنیوں کے ہوتے ہیں؟ چین کو ان سے حاصل ہونے والے ڈیٹا تک رسائی حاصل ہے ۔

سکیورٹی کیمرہ، کیا چین کو حساس معلومات تک رسائی حاصل ہے؟
سکیورٹی کیمرہ، کیا چین کو حساس معلومات تک رسائی حاصل ہے؟
user

Dw

کیا آپ کے گھر میں سکیورٹی کیمرہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو بہت امکان ہے کہ اسے ہیک وژن یا داہوا نامی کسی چینی کمپنی نے بنایا ہوگا۔ نگرانی کے کیمروں کی مارکیٹ پر ان کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔ اس مارکیٹ پر تحقیق کرنے والے ایک ادارے آی ڈی سی کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2021 ء میں ان دونوں کمپنیوں نے تقریباً 35 بلین ڈالر مالیت کی عالمی مارکیٹ کا ایک تہائی حصہ بنایا تھا۔

جہاں ہووآوے جیسی چینی کمپنیوں کو یورپی ممالک میں سکیورٹی کے خطرے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے وہیں ان دونوں نگرانی کرنے والی کمپنیوں پر نسبتاً کم توجہ دی گئی ہے۔ اب عالم یہ ہے کہ اس وقت ان کے آلات پوری دنیا میں ہوائی اڈوں، ٹرین اسٹیشنز اور یہاں تک کہ سرکاری عمارتوں پر بھی نظر نصب ہیں۔


چین کی کمیونسٹ پارٹی سے تعلقات

دنیا بھر میں کئی لوگ اس بات سے نا خوش نظر آتے ہیں۔ چینی حکومت کے پاس ان دونوں کمپنیوں کی جزوی ملکیت موجود ہے اور اہم انفراسٹرکچر میں ان کی موجودگی ممکنہ جاسوسی کے بارے میں خدشات کا باعث بن رہی ہے۔ ناقدین اس بات سے خبردار کر رہے ہیں کہ ان کے سسٹمز میں جاسوسی کے عوامل کار فرماں ہو سکتے ہیں اور ان کے ذریعے بیجنگ حکومت خفیہ طور پر حساس ڈیٹا تک رسائی حاصل کر سکتی ہے۔

ایسی حفاظتی خلاف ورزیوں کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن بیجنگ کے پاس ڈیٹا تک زیادہ واضح رسائی ہے جس میں وہ ممکنہ طور پر دلچسپی رکھتا ہے۔ برلن کے مرکاٹر انسٹی ٹیوٹ فار چائنا سٹڈیز کی محقق انتونیا ہمیدی کہتی ہیں، ''اگر ہم چینی قوانین کو دیکھیں تو یہ بہت واضح ہیں۔ ہر چینی کمپنی پر حکومت کے ساتھ تعاون کرنا اور ڈیٹا شئیر کرنا لازم ہے۔ اس میں وہ ڈیٹا بھی شامل ہوتا ہے جو پی آر سی میں محفو‌ظ ہوتا ہے اور بیرون ممالک سے جمع کیا جاتا ہے۔‘‘


سلامتی کے خطرات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں

یہی وجہ ہے کہ کئی ممالک نگرانی سے متعلق آلات بنانے والی چینی کمپنیوں پر پابندی لگا رہے ہیں۔ سب سے نمایاں کیسز ذیڈ ای ٹی اور ہوآوے جیسی ٹیلی کمیونیکیشن فرمز کی ہو سکتی ہیں تاہم مغربی حکومتیں اب ہیک وژن اور داہوا جیسی کمپنیز پر بھی لگام لگانے کی خواہاں ہیں۔

2022 کے آواخر سے اب تک آسٹریلیا اور برطانیہ نے ان کمپنیوں کی مصنوعات کو سرکاری عمارتوں اور دیگر حساس علاقوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے۔ امریکہ نے 'قومی سلامتی کے لیے ناقابل قبول خطرے‘ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کی فروخت اور درآمد پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے۔ دونوں نگرانی کے آلات بنانے والی کمپنیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے جیسے سنگین الزامات کا بھی سامنا ہے۔ متعدد رپورٹس کے مطابق ہکی وژن چین میں ایغور مسلمانوں کے لیے بنائے گئے عقوبت خانوں کو ٹیکنالوجی کی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔


اس طرح کے سنگین خدشات کے باوجود چین کی یہ بڑی کمپنیز مارکیٹ پر اپنا قبضہ کیسے قائم کر پائی ہیں؟ اس کا جواب ان کے پرائس ٹیگز پر موجود ہے۔ سن دو ہزار ایکیس میں جاری کردہ ڈیجیٹل رائٹس این جی او 'ایکسس ناؤ‘ کی رپورٹ کے مطابق ہیک وژن کی قیمت حریف کمپنیوں کے کیمروں سے دس گنا کم تھی۔

آئی ڈی سی کے ویڈیو سرویلنس مارکیٹ کے تجزیہ کار مائیک جوڈ کہتے ہیں، ''تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ کمپنیاں حکومت کے ساتھ بہت مضبوطی سے جڑی ہیں کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی کی مناسب قیمت ہی وصول نا کر رہی ہوں۔‘‘ اس سے ان کمپنیز کو ان ممالک سے فوائد حاصل ہوںے کے امکانات ذیادہ ہیں جہاں جوڈ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی مارکیٹ وسیع ہے۔


لاطینی امریکہ سستے داموں کی لالچ میں

اس کی ایک مثال لاطینی امریکہ ہے جہاں تجزیہ کار اگلے چند سالوں میں اس مارکیٹ کی سالانہ شرح نمو تیرہ فیصد سے زیادہ کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔ اس پورے خطے میں حکومتیں پہلے ہی اپنی ویڈیو نگرانی اور بائیو میٹرک کی صلاحیتوں کو بڑھا رہی ہیں۔ تاہم کئی ممالک میں ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین، حکام اور کمپنیوں کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے ناکافی ہیں۔ ایکسس ناؤ کے مطابق اس سے لوگوں کی پرائیویسی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ عوامی نگرانی کو بڑھانے کی کوششوں میں اس خطے کی حکومتوں نے اکثر چینی کیمرہ بنانے والی کمپنیوں سے ہی رجوع کیا ہے۔ سستی قیمتوں کے ساتھ ہیک وژن نے کچھ ممالک کو کورونا وبا کے دوران ٹیسٹ ڈرائیو اور انفیکشنز کا پتہ لگانے کے لیے مفت آلات فراہم کر کے اپنی موجودگی کو اس خطے میں بڑھانے کی کوشش بھی کی ہے۔

لاطینی امریکہ کے اندر اور عالمی سطح پر نگرانی کی ٹیکنالوجی کی مارکیٹ میں اضافہ جاری رہنے کا امکان ہے۔ اگرچہ ہیک وژن اور داہوا کے آپریشنز پر مغربی پابندیوں کے اثرات کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن مستقبل قریب میں ان کی مصنوعات کی مجموعی مانگ کم ہونے کے کوئی خاص امکان نظر نہیں آتے۔


ویڈیو نگرانی کے نظام کے ذریعے جمع کیے گئے ڈیٹا کی حفاظت کے لیے چینی کمپنیوں پر لگنے والی پابندیاں اور سخت قوانین اس مسئلےکا ایک حل ہو سکتی ہیں۔ لیکن سائبر سکیورٹی کی ماہر انتونیا ہمیدی سرویلنس کے نظام میں بہتر سکیورٹی کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ بہتر سائبر سکیورٹی کے طویل مدتی حل میں ایسے شفاف قوانین کو شامل کرنا چاہیے جو تمام ویڈیو سرویلنس فراہم کنندگان کو اپنے سکیورٹی آلات کو اپ ڈیٹ رکھنے اور لازمی طور پر اپنی حکومتوں کی پہنچ سے باہر رکھنے کے لیے پابند کریں۔ تاہم، موجودہ عالمی رجحانات میں ایسا ہونے کے امکانات فی ال لحال زیادہ روشن نہیں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔