کیا پاکستان کی قبائلی خواتین وراثت میں حصہ دار بن سکیں گی؟

امریکی امداد کے تحت سابقہ قبائلی علاقوں میں اراضی کی حد بندی کے لیے منصوبے کو خواتین کو واراثت میں حق دینے سے مشروط کیا گیا ہے۔

کیا پاکستان کی  قبائلی خواتین وراثت میں حصہ دار بن سکیں گی؟
کیا پاکستان کی قبائلی خواتین وراثت میں حصہ دار بن سکیں گی؟
user

Dw

پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام سابقہ قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کے صوبہ خیبر پختوانخوا (کے پی) میں انضمام کے بعد وہاں پہلی بار لینڈریفارمز کے تحت زمینوں کی حد بندی کافیصلہ توکیا گیا ہے لیکن اسے عمل کی تکمیل کے لیے درکار مستعد انتظامی نگرانی سمیت انسانی اور مالی وسائل کی عدم دستیابی نے فاٹا میں زمینوں کی حد بندی کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں۔

انگریز دور کے بعد اراضی کی حد بندی میں پیچیدگیاں

خیبرپختونخوا میں سال 2018 کے دوران ضم کی گئیں سات ایجنسیز اورچھ سرحدی علاقوں میں اراضی کی تقسیم کا معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ قیام پاکستان سے قبل انگریز حکمرانوں نے اپنے زیر قبضہ بندوبستی علاقوں کے برعکس قبائلی علاقوں میں اراضی کےعوامی ریکارڈ اورحد بندی کا باقاعدہ تعین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔


بعد میں انگریز حکمران چلے گئے تو فاٹا کے سات اضلاع میں غیر منقسم اور منتشر اراضی کے معاملات لڑائی جھگڑوں،زور زبردستی یا قبائلی جرگوں سے نمٹائےجانے لگے لیکن یہ صورتحال اس وقت مزید بگڑ گئی جب مئی 2018 میں فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہوا،اگلے سال ریونیو ایکٹ کو بھی قبائلی اضلاع تک توسیع دی گئی۔ پولیس اور عدالتی نظام نے کام شروع کیا لیکن اراضی کا معاملہ نئے قانون کے ساتھ سلجھنے کی بجائے اور الجھتا گیا۔

پائلٹ پراجیکٹ کے تحت خیبرپختونخوا حکومت نے ان پانچ سال میں قبائلی اضلاع کرم،خیبر اور شمالی وزیرستان میں انگریز دور سے غیر رجسٹرڈ اراضی کو ریکارڈ پر لانے کی کوشش ضرور کی لیکن قبائلی تنازعات کے باعث یہ منصوبہ ذیاہ پائیدار ثابت نہ ہوا۔ عدالتیں قائم ہوئیں، پولیس بھی آگئی لیکن ججزکوزمینوں کے تنازعات کا فیصلہ سرکاری ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا ہوتا ہے اور یہاں سرکاری ریکارڈسرےسے موجود ہی نہیں۔


ضلع مہمند کے ایک سماجی کارکن عبداللہ خان کے مطابق، ’’قبائلی لوگوں کی جدی پشتی زمینیں تھیں،سب کو پتہ ہوتا تھا کس کی حد بندی کہاں تک ہے پھر بھی تنازعہ پیدا ہوتا تو قبائلی جرگوں میں کافی حد تک تنازعات حل ہوجاتے اب انضمام کے بعد معاملہ عدالتوں میں جا رہا ہے اور ریکارڈکی عدم موجودگی کے باعث اکثر فیصلہ شواہد اور گواہوں کی بنیاد پرکرنا پڑرہا ہے۔

ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والےایک صحافی عزت گل کے مطابق، ''انتظامیہ لینڈ ریکارڈ مرتب کرنے کے لئے وقتاﹰ فوقتاﹰ ڈیٹا تو لے رہی ہے لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے، بہت سی زمینیں غیر منقسم پڑی ہیں اور شاملات پر قبیلوں کے درمیان لڑائیوں کا باعث بن رہی ہیں۔ کئی مقامات پربااثر لوگوں نے زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے،جو کسی کا حق یا جرگے کی مصالحت کو نہیں ما نتے ۔‘‘ گل کے مطابق قبائلی ضلع کرم میں دو قبیلوں کے درمیان حالیہ خونریز لڑائی میں بیس سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے،جس کو مسلکی لڑائی قرار دیا جارہا ہے لیکن تنازعے کی اصل جڑ اراضی ہی ہے۔


پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کا کہنا ہے کہ امریکہ نے فاٹا میں زمینوں کی حد بندی کے فیصلے کی تکمیل کے لیے عملی اقدامات میں مالی و تکنیکی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے قبائلی لینڈ رجسٹریشن میں خیبر پختونخوا حکومت کی مددکا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں امریکی امدادی اداروں یو ایس ایڈ اور ڈی اے آئی کے اشتراک سے باقاعدہ طور پر ایک ڈیجیٹل منصوبے کا افتتاح کر دیا گیا ہے۔

اس منصوبے کے تحت لینڈ ریکارڈ مرتب کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے مدد لی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے خیبرپختونخوا ریونیو ڈیپارٹمنٹ کو 50 لاکھ ڈالر مالیت کا سامان بھی فراہم کر دیا گیا ہے ،جس کے بعد اس محکمہ کی اراضی کی درست پیمائش کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ اس کےساتھ ساتھ اس منصوبے کو غیر اعلانیہ طور پر قبائلی خواتین کو زمینوں میں وراثت دینے کے عمل سے مشروط کردیا گیا ہے اور اس کے لیے صوبائی محتسب کواس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے۔


امریکی امدادی اداروں کی مدد سے لینڈ رجسٹریشن کا منصوبہ قبائلی علاقوں میں خواتین کو وراثت میں حق نہ دیے جانے کا معاملہ ایک مرتبہ پھرسامنے لے آیا ہے۔ اس معاملے پر خیبرپختونخوا کی صوبائی محتسب رخشندہ ناز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ریونیو ایکٹ کے بعد خواتین کو جائیداد میں حصہ دینے کا قانون سن دو ہزار انیس سے فاٹا میں بھی نافذ ہے لیکن اس سلسے میں پیشرفت کے لیے مالی اور انسانی وسائل کی قلت سے ادارے کو پہلے ہی مسائل کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا، ’’روزانہ بیس پچیس خواتین وراثت میں حق کے لئے محتسب آفس سے رابطہ کر رہی ہیں،اب قبائلی اضلاع میں اس عمل کو اگے بڑھانا ایک بڑا چیلنج ہے لیکن اس سے پہلے لینڈ رجسٹریشن کے عمل کی تکمیل ضروری ہے۔‘‘ تاہم یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت اب تک صوبے کے سولہ بندوبستی اضلاع میں صرف 64فیصد لینڈ ریکارڈ جمع کرنے میں ہی کامیاب ہوئی ہے۔ اس صورتحال کی موجودگی میں فاٹا میں لینڈ ریفارمز اور زمینوں کی حدبندی ایک طویل اور صبر آزما عمل دکھائی دیتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔