دیا بھیل کو انسان کیوں نہیں سمجھا گیا؟
عورت کو 'پاک اور پوِتر‘ ہونے کی مثالیں قائم کرنے پر مجبور کیوں کیا جاتا ہے؟ عورت کو محض انسان کیوں نہیں سمجھا جا سکتا، تاکہ وہ عام طریقوں کو اپنی عملی زندگی میں اپنا سکے۔
ابھی کچھ دن پہلے سندھ کے ضلع سانگھڑ کے سنجھورو شہر میں دیا بھیل نامی ایک ہندو خاتون کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اس کے سر کو، جسم کے نازک حصوں کو کاٹ دیا گیا۔ جسم کی چمڑی تک ادھیڑ دی گئی اور چہرے کو ناقابل شناخت حد تک مسخ کر دیا گیا اور بعد ازاں اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی گئی۔
کیا یہ اس لیے ہوا کہ اس نے نامناسب کپڑے پہن رکھے تھے یا وہ گھر دیر سے پہنچی تھی۔؟ پولیس حکام کے مطابق انہوں نے اپنے پورے پولیس کیریئر میں تشدد کا اتنا خوفناک کیس نہیں دیکھا۔ تصور کیجیے کہ ایک عورت کو کاٹا گیا اور اس کی چمڑی تک ادھیڑ دی گئی۔ کیا یہ ظلمت کی آخری انتہا نہیں ہے؟ کیا یہ عورت کے خلاف دہشت گردی نہیں ہے؟
خاندان والوں کے مطابق 27 دسمبر کی صبح دیا بھیل گھر سے کچھ فاصلے پر سرسوں کے کھیتوں کے پاس سے گھاس کاٹنے کے لیے نکلی تھی۔ اب ہمیں سر جوڑ کر بیٹھنا ہے اور سوچنا ہے کہ گھر کے سامنے اور وہ بھی صبح کو یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟ اگر ایک عورت گھر کے پاس بھی محفوظ نہیں ہے تو پھر وہ دیر آئے سویر آئے کیا فرق پڑتا ہے۔
پولیس کے مطابق اس روز دیا کی گھاس کاٹنے والی درانتی اور کپڑا اس کے گھر کے قریب سے ملے ہیں، جس کے بعد پولیس گھر کے کچھ مرد افراد سے تفتیش کر رہی ہے۔ اور اتنے دن گزرنے کے بعد بھی کوئی خاص شواہد ہاتھ نہیں لگ سکے ہیں۔
وومنز ایکشن فورم کی وفد امر سندھو کا کہنا تھا، ''عورت گھر کے اندر قتل ہو یا گھر کے باہر۔ اس کے قتل کے اسباب ذاتی سے زیادہ سماجی ہوتے ہیں اس لیے سماج کو تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے مگر جب ریاستی ادارے اپنا کام یعنی اپنے شہریوں کو سماجی انصاف دینے میں ناکام ہوں تو وہاں عورتوں اور کمزور طبقات پر زیادہ اثر ہوتا ہے۔‘‘
یاد رہے کہ دیا بھیل "عورت" ہونے کے ساتھ ساتھ "بھیل" بھی تھی، جو ہندوؤں کی ایک نچلی ذات سمجھی جاتی ہے۔ ماں کے پیروں تلے جنت ہوتی ہے، عورت دھرتی ماں ہوتی ہے۔ عورت کو دیوی کا درجہ دے کر کبھی اس کی پوجا کی جاتی ہے، تو کبھی اس کو اخلاقیات کا عبایا اڑایا جاتا ہے۔
عورت کو وہی مواقع کیوں نہیں میسر ہو سکتے، جو ایک مرد کے ورثے میں آتے ہیں۔ اسے فیصلہ کرنے میں خوف کے احساس سے کیوں گزرنا پڑتا ہے؟ اس سب کے باوجود جنسی جرائم اور صنفی تشدد کی فہرست کو دیکھا جائے تو وہ اتنی لمبی ہے کہ اس کی دہشت سے کچھ خواتین اپنے خوابوں کو یا تو ترک کر دیتیں ہیں یا محفوظ طرز زندگی کو اپنانے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
پاکستان میں اکثر آبادی کا تو یہ "عقیدہ" بن چکا ہے کہ لڑکیوں کے لباس کا انتخاب عورت کے خلاف تشدد کا بنیادی سبب بنتا ہے۔ لیکن مجھے سمجھ نہیں آتا کہ عورت کے لباس اور خودمختاری سے کسی کو کیسے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ کوئی جرم یہ دیکھ کر تو نہیں کیا جاتا کہ کون خودمختار ہے اور کون نہیں ہے، پھر یہ کیسی بحث ہے؟ کچھ بھی تھا دیا بھیل کی زندگی چھینے کا کسی کو حق نہیں تھا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔