ہم ڈانس کیوں کرتے ہیں: رقص کی سائنسی توجیحات

رقص ہر انسانی سماج کا حصہ ہے۔ لیکن کیا ہم میں ڈانس کی صلاحیت پیدائشی ہوتی ہے؟ کیا جانور رقص کر سکتے ہیں؟

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

Dw

ایک مستی بھرا گانا سنتے ہوئے، اپنے کندھوں کو ہلانا، سر کو جھولنے، ہاتھوں اور پیروں کو حرکت سے باز رکھنا، یا اپنے پورے جسم کو ڈھیلا چھوڑ کر موسیقی کو اپنی حرکات کنٹرول نا کرنے دینا ایک مشکل کام ہے۔ یہاں تک کہ ٹک ٹاک پر ایک ایساچیلنج بھی ہے، جس کا مقصد مشہور گانوں کو سنتے وقت رقص کرنے کی خواہش پر قابو پانا ہے۔ ایسا سننے میں شاید آسان لگتا ہے لیکن اس پر عمل کرنا خاصا مشکل ہے۔

زندگی میں کچھ ہی تجربات رقص کی طرح آزاد اور ہپناٹائز کر دینے والے ہوتے ہیں۔ رقص کی جڑیں ہم میں اتنی گہرائی سے پیوست ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ کوئی انسانی معاشرہ ایسا نہیں، جس میں رقص کی کوئی شکل موجود نہ ہو۔ ہمارے ہاں رقص انتہاتی متنوع ہے اور بہت سی جگہوں پر وہ خوراک یا زبان کی طرح ہی ایک ثقافتی خاصیت ہے۔


اور اگر آپ اس کے بارے میں سوچیں، تو رقص بہت ہی پیچیدہ اور مضبوطی کے ساتھ موسیقی سے جڑا ہوا ایک عمل ہے۔ لیکن ہم کیوں رقص کرتے ہیں؟ کیا انسانوں میں یہ خصوصیت پیدائشی طور پر ہوتی ہے؟ کیا جانور بھی ناچ سکتے ہیں؟ رقص موسیقی سے بہت ہی پیچیدگی اور مضبوطی سے جڑا ہوا ایک عمل ہے۔

موسیقی ہمیں حرکت میں لاتی ہے

موسیقی اور رقص انسانی ثقافت میں عالمگیر ہیں اور اس متعلق ایک اہم پہلو، جوسائنسدانوں نے پایا ہے وہ یہ ہے کہ موسیقی اکثر انسانوں میں بے ساختہ حرکت پیدا کر سکتی ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ موسیقی کے جواب میں حرکت کرنا ہمارا ایک پیدائشی وصف ہے۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ بچے تین ماہ کی عمر سے ہی موسیقی سنتے ہی اچانک حرکت شروع کر سکتے ہیں۔ یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا وہ صرف موسیقی کی دھن پر ایسا کر سکتے ہیں یا نہیں۔


آئیے ان تمام چیزوں پر نظر ڈالیں، جو دوران رقص ہمارے جسم میں رونما ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے جب ہم موسیقی سنتے ہیں تو اس میں نہ صرف ہمارے کان بلکہ ہمارے دماغ کے اندر کا نظام بھی شامل ہوتا ہے، جو کہ موسیقی سے پیدا ہونے والے ارتعاش کو کسی ایسی چیز میں ڈھال دیتا ہے، جسے ہم سمجھ سکتے ہیں۔ پھر ہمارے دماغ کا یہ سمعی حصہ ہماری نقل و حرکت کے انچارج حصے یعنی موٹر ایریاز کے ساتھ ملاپ کرتا ہے۔

محققین کو معلوم کیا ہے کہ جب ہم بغیر حرکت کیے موسیقی سنتے ہیں تو ہمارے دماغ کے وہ حصے روشن ہوجاتے جو جسم کو حرکت کا اشارہ بھیجتے ہیں۔ تال کے پہلوؤں، جیسے دھڑکن کو محسوس کرنا، ہمارے دماغ کے سمعی اور حرکت کرنے والے حصوں کے درمیان گہرے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان موسیقی کی تربیت کے بغیر بھی آسانی سے گانے کی تھاپ پر تالیاں بجا سکتے ہیں۔ تحقیق اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ بچے چار سال کی عمر میں ہی موسیقی کے ساتھ مانوس ہونا شروع کر دیتے ہیں، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا کہ آیا یہ عمل پیدائشی ہے یا کہ سیکھا ہوا ہنر؟


دھمک کو کم کرنا دراصل ہم میں مزید رقص کرنے کی خواہش پیدا کر سکتا ہے۔ رقص میں نہ صرف تال ایک کردار ادا کرتی ہے بلکہ موسیقی کے دیگر پہلو بھی اس پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ میک ماسٹر یونیورسٹی کے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو ڈینیئل کیمرون کی سربراہی میں کرنٹ بائیولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق یہاں تک کہ ایسی گہری دھمک جو ہم سن سکتے ہیں اس سے کم آواز بھی لوگوں کو زیادہ رقص کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

رقص کا ارتقاء

ہم ابھی تک یقینی طور پر یہ نہیں جانتےکہ ہمارے پاس موسیقی اور رقص کے بارے میں یہ رجحانات کیسے اور کیوں ہیں۔ لیکن بہرحال اس بارے میں کچھ مفروضے قائم ہیں۔


موسیقی کا ارتقا

ایک مشہور خیال یہ ہے کہ موسیقی اور رقص نے سماجی بندھن میں مدد کی۔ موسیقی اور رقص کسی ایک گروپ کے اراکین کو اکٹھا کرنے اور آپس میں تعاون کو فروغ دینے یا اس گروپ کی ثقافت اور علم کے اہم پہلوؤں کو پہچانے کے ایک ابتدائی ذریعے کے طور پر مدد کرتے ہیں۔

ڈینیئل کیمرون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب ہم ایک گروپ کے طور پر اکٹھے ہوتے ہیں، تو ہم ان لوگوں سے زیادہ بندھے ہوئے اور جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں، جن کے ساتھ ہم رقص کر رہے ہیں۔ اس بات کا آپس میں تعلق جاننے کے لیے سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ انسان رقص کرتے ہی کیوں ہیں، لیکن یہ جانچ کرنا بہت مشکل ہے۔‘‘


اس بارے میں برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں ارتقائی نفسیات کے پروفیسر رابن ڈنبر نے 2012 ء میں اپنی ایک کتاب میں لکھا، ''یہ ہو سکتا ہے کہ جب ہماری (انسانوں ) کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہو، تو موسیقی اور رقص نے ایک ساتھ رہنے میں ہماری مدد کی ہو، شاید رقص اس لیے ظاہر ہوا کہ ہم نقل کرنے میں پہلے ہی بہت اچھے تھے۔

رقص کے پیچھے تقلید کا بڑا ہاتھ ہے۔ ہم اکثر دوسروں کو دیکھ کر اور ان کی حرکات کی نقل کرنے کی کوشش کر کے ناچنا سیکھتے ہیں۔ کچھ رقص جانوروں یا ان کے قدرتی ماحول کے دیگر پہلوؤں کی بھی نقل کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے جانور اور کاکاٹو جیسے پرندے جو اچھی نقالی کرتے ہیں وہ ایک دھن کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کے قابل ہوتے ہیں۔ یہ سب رقص کرنے کی صلاحیت میں نقالی کے کلیدی کردار ادا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔‘‘


کیا جانور ناچ سکتے ہیں؟

یونیورسٹی آف کیمبرج کے شعبہ نفسیات میں تقابلی ادراک کی پروفیسر اور رقاصہ نکی کلیٹن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''کچھ جانور ایسے ہیں جو مشترکہ طور پر ایسی حرکات کی نمائش پیش کرتے ہیں، جو کچھ طریقوں سے رقص کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر، بگلوں کا رقص یا برڈ آف پیراڈائز کا رقص‘‘

یہ سوال کہ آیا جانور رقص کر سکتے ہیں یا نہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ، '' ہم 'ڈانس‘ کی تعریف کیسے کرتے ہیں، اگر اس سے ہمارا مطلب موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت ہے، جسے سائنس دان 'انٹرینمنٹ‘ کہتے ہیں، تو ہاں، حال ہی میں طوطوں، سمندری شیروں، بونوبوس اور چیمپینزیوں میں اس کے بارے میں معلومات ملی ہیں۔‘‘


2009 میں، امریکہ کی ٹفٹس یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر انیرودھ پٹیل کی سربراہی میں کی گئی ایک تحقیق نے ظاہر کیا کہ کاکاٹو پرندہ ''سنو بال‘‘ موسیقی کی دھن پر ہم آہنگی کے ساتھ حرکت کرنے کے قابل تھا اور اس نے چند گانوں کے ٹریکس پر ایسا کیا۔

ایک حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ چیمپینزی نہ صرف کی بورڈ کی کلید کو ہم آہنگ کر سکتے ہیں بلکہ اس آواز کو خود ہی متحرک کر کے چیمپینزی اپنے سروں کو ہلانا شروع کر دیتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ جب موسلادھار بارش ہوتی ہے تو چیمپینزی نام نہاد 'رین ڈانسز‘ یا بارش میں رقص بھی کرتے ہیں۔


یہ رین ڈانسرز ہمارے قریبی رشتہ دار ہیں اور تقریباﹰ چھ ملین سال قبل ہمارے آباؤ اجداد مشترک تھے۔ لہذا، ان نتائج کا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ ہمارے مشترکہ آباؤ اجداد کے پاس رقص کے لیے درکارکچھ اجزاء پہلے سے ہی موجود تھے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔