ہمیں انتظار کیوں اچھا نہیں لگتا؟

انتظار کسی دوست کا ہو یا بس کا، کسی کی کال کا ہو یا پیغام کا۔ آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ انتظار ایک اذیت ناک کیفیت ہے۔ مگر اس اذیت کی وجہ نفسیاتی ہے۔

ہمیں انتظار کیوں اچھا نہیں لگتا؟
ہمیں انتظار کیوں اچھا نہیں لگتا؟
user

ڈی. ڈبلیو

ہمارے ہاں شاعری تو انتظار کی اذیت سے بھری پڑی ہے۔ کبھی محبوبہ کی راہ دیکھتی آنکھیں، کبھی کسی چٹھی کا انتظار۔ کہتے ہیں کہ انتظار میں ایک پل ایک صدی برابر ہو جاتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ وقت کے یوں تھم جانے کے درپردہ وجوہ کیا ہیں؟ محققین کہتے ہیں کہ اس کی ایک بنیادی وجہ نفسیاتی ہے۔

انتظار کی اذیت کسی ایک خطے کے انسانوں یا ثقافت تک محدود نہیں بلکہ مشرق کی طرح مغربی ادب میں بھی انتظار کو ایک 'منفی کیفیت‘ کے طور پر برتا گیا ہے۔


وقت سرمایہ ہے۔ شاید سب سے اہم سرمایہ۔ اگر آپ کو کسی ریستوران میں ٹیبل خالی ہونے کا انتظار کرنا ہو، کوئی بس یا جہاز تاخیر کا شکار ہو جائے، کسی نے وقت دیا ہو اور وقت پر نہ پہنچے، تو ایسے میں جیسے یہ سرمایہ کھوتا نظر آتا ہے۔ بے صبری شاید اسی لیے انتظار سے جڑی کیفیت ہے۔

انتظار کرنا برا کیوں لگتا ہے؟


برلن میں مقیم ماہر نفسیات کلاؤڈیا پیپیل کی ایک کتاب کا نام ہے، ''انتظار کا فن‘‘۔ یہ کتاب 2019 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں عہدحاضر کے مختلف فوٹوگرافروں اور گرافک آرٹسٹس کا کام نثر پاروں، مضامین اور انٹرویوز کے ساتھ جمع کیا گیا ہے، جس کا بنیادی مدعا ہے، انتظار۔

پیپیل کہتی ہیں، ''بہت سی انتظار گاہیں زمان و مکان سے ہمارے ربط کی عکاس ہیں۔ یہی یقین و گمان کا احساس ہمیں اذیت کا شکار بناتا ہے۔ ‘‘


پیپل کی کتاب میں مؤرخ وینسنٹ کنیخٹ لکھتے ہیں، ''انتظار وہی کروا سکتا ہے، جو طاقت رکھتا ہے۔‘‘ محقق گائسلر اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انتظار کروانا 'طاقت کے اظہار کا ایک آلہ بھی ہے۔‘‘

پیپیل کے مطابق، ''انتظار کرتے ہوئے ہم گزرتے وقت کو لمحہ بہ لمحہ محسوس کرتے ہیں۔ ہم اس بات پر بھی شکایت کرتے ہیں کہ وقت نہیں ہے کہ سکون سے ایک پل بیٹھ سکیں اور دوسری جانب انتظار کے پل میں یوں سکون سے بیٹھتے ہیں، تو اس سکون سے بیٹھنے پر بھی شکایت ہے۔ ہم انتظار کرواتے تو ہیں، مگر کوئی ہمیں انتظار کروائے، تو ہمیں بالکل پسند نہیں آتا۔‘‘


پھر انتظار بھی ایک طرز کا نہیں، انتظار بھی تہہ بہ تہہ ہے۔ ہم ہر وقت ہی کسی نہ کسی انتظار کا حصہ ہیں۔ کوئی مذہبی کسی شخصیت کسی اوتار کا منتظر ہے، کوئی موسیقار ستار کی رگوں کو انگلیوں سے محسوس کرنے کے انتظار میں ہے، کسی بچے کو اپنی سال گرہ یا عید یا کرسمس کا انتظار ہے، کوئی وعدہ ایفا ہو جانے کا منتظر ہے۔ 'وقت سرمایہ ہے‘ کا چکر سماج کے ایک ایک کونے میں بسا ہوا ہے اور انتظار نفسیاتی طور پر اس سرمایے کے کھو جانے کے تلخ اور منفی احساس سے جڑ چکا ہے۔

گائسلر تو یہ تک کہتے ہیں کہ انتظار کی کیفیت یا وقت گزرنے کی حالت کا دارومدار بھی اس بات پر ہے کہ انتظار کس سے جڑا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔