کشمیر میں بجلی کی شدید قلت آخر کیوں؟

کشمیر میں سردیوں کے موسم میں صفر سے بھی کم درجہ حرارت اور پھر بجلی کا غائب ہو جانا وہاں کے رہائشیوں کے لیے ایک تکلیف دہ امتزاج ہے۔

کشمیر میں بجلی کی شدید قلت آخر کیوں؟
کشمیر میں بجلی کی شدید قلت آخر کیوں؟
user

Dw

کشمیر میں سردیوں کے موسم میں صفر سے بھی کم درجہ حرارت اور پھر بجلی کا غائب ہو جانا وہاں کے رہائشیوں کے لیے ایک تکلیف دہ امتزاج ہے۔ کشمیر میں بجلی پیدا کرنے کے وسیع امکانات موجود ہیں تو پھر وہاں اتنی کم بجلی آخر کیوں؟

کشمیر کے لوگوں کے لیے بجلی کی قلت ایک بری پریشانی ہے، اور کشمیر کے لوگ یہ شکایت بھی کرتے آئے ہیں کہ نئی دہلی ان کے ہائیڈرو پاور کے ذرائع پر نظریں گاڑے ہوئے ہے۔


کشمیر کے خطے میں 20,000 میگاواٹس پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے، جو اس خطے کی معاشی ترقی کا زینہ ثابت ہو سکتی ہے، مگر یہاں محض 3,263 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔

کشمیر میں اس صدی کے آغاز میں عسکریت پسندی میں بتدریج کمی کے بعد بجلی کی ضروریات یہاں کی ان جماعتوں کے لیے اہم ترین موضوع رہا جو یہاں کامیابی کے لیے کوشاں تھیں۔


علاقائی سیاسی جماعتیں یہ مطالبہ کرتی رہی ہیں کہ وہ سات پاور پراجیکٹس واپس کشمیری انتظامیہ کے حوالے کیے جائیں جو اس وقت نیشنل ہائیڈرو پاور کارپوریشن کے پاس ہیں۔ یہ حکومت کی ایک کمپنی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ کشمیر میں پیدا ہونے والی 3,263 میگاواٹ میں سے این ایچ پی سی 2,009 میگا واٹ بجلی پیدا کرتی ہے مگر اس کا محض 13 فیصد کشمیر میں فراہم کیا جاتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ کشمیری عوام کو اس کے مقابلے میں بجلی کی کہیں زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جتنی بھارت کے شمالی گرڈ سے منسلک دیگر صارفین کو ادا کرنا ہوتی ہے۔


’ہمیں دن میں چھ گھنٹے بھی بجلی نہیں ملتی‘

''اس انتہائی سخت سردی اور صفر سے نیچے کے درجہ حرارت میں ہمیں پورے دن میں چھ گھنٹے بھی بجلی نہیں ملتی۔ ہم نہانے اور کپڑے دھونے کے لیے بھی پانی گرم کرنے کے لیے لکڑیاں جلا کر گزارہ کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہنا ہے کشمیر کے شمالی بارہ مولا ضلع کے واگورا کی رہائشی نسیمہ رسول کا۔

نسیمہ کہتی ہیں کہ ان حالات میں سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد اور اسکول جانے والے بچے، خاص طور پر وہ جن کے امتحانات چل رہے ہیں وہ سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں، ''ہمارے بچے شام میں دیر تک یا صبح جلدی پڑھ نہیں سکتے کیونکہ بجلی ہی دستیاب نہیں ہوتی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Dec 2021, 6:40 AM