مذہبی جماعتیں لڑکیوں کے سائیکل چلانے کے خلاف کیوں ہیں؟

پاکستان میں متعدد حلقے لڑکیوں کے سائیکل چلانے کو فحاشی اور دینی روایات کے منافی قرار دیتے ہیں۔ ان میں مذہبی جماعتیں پیش پیش ہیں۔

مذہبی جماعتیں لڑکیوں کے سائیکل چلانے کے خلاف کیوں ہیں؟
مذہبی جماعتیں لڑکیوں کے سائیکل چلانے کے خلاف کیوں ہیں؟
user

Dw

سابقہ قبائلی ضلع خیبر کے علاقے لنڈی کوتل میں خواتین کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا سائیکلنگ کیمپ لگایا گیا جس کا انعقاد پاکستانی کی معروف سائیکلسٹ ثمر خان اور سماجی کارکن جمائمہ آفریدی نے کیا۔ منتظمین کے مطابق اس دو روزہ کیمپ میں 15 لڑکیوں نے حصہ لیا جن کے والدین کی نہ صرف اجازت شامل تھی بلکہ ان میں سے بعض خود بھی کیمپ میں موجود رہے۔ تاہم بعض حلقوں نے اسے ’’فحش‘‘ اور ’’دینی و قبائلی روایات‘‘ کے منافی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ لڑکیوں کے سائیکل چلانے کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہو۔ یہاں تک کہ ایسے فتوے موجود ہیں جن میں خواتین کا سائیکل چالنا "فتنہ” اور ''بداخلاقی‘‘ قرار دیا گیا۔مگر مذہبی جماعتیں لڑکیوں کے سائیکل چلانے کے خلاف کیوں ہیں؟ انہوں نے کیسے تعین کیا کہ اس سے باز رکھنا ان کی ذمہ داری ہے؟ مزید یہ کہ سائیکلنگ کے خواتین کی صحت پر کیسے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جماعت اسلامی نے لنڈی کوتل میں خواتین کے سائیکلنگ کیمپ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نعرہ بلند کیا تھا کہ ’یہ ترقی کے نام پر مغرب کی سازش ہے‘۔ نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا کہنا ہے کہ مقامی قیادت کا یہ قدم قابل ستائش ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ "ضرورت کے تحت پردے میں رہتے ہوئے خواتین کو سائیکل چلانے کی اجازت دی جا سکتی ہے مگر سائیکلنگ کیمپ کے نام پر مغرب کے ایجنڈے کا فروغ نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ مغرب کے ایجنڈے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، "مغرب قبائلی علاقوں میں لوگوں کے دلوں سے دین کی محبت ختم کرنا چاہتا ہے۔ وہ انہیں روشن خیالی کے نام پر ایسے کلچر میں دھکیلنا چاہتا ہے جہاں مخلوط محفلیں عام ہوں، جہاں شرم و حیا جیسی مذہبی اقدار مضحکہ خیز معلوم ہوں اور خواتین چادر اور چار دیواری کو غلامی سمجھنے لگیں۔ یہ ترقی کے نام پر مغرب کی سازش ہے جسے جانتے بوجھتے پھیلایا جا رہا ہے، اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔‘‘


’خواتین کا کام گھر کے پردے میں بیٹھنا ہے سائیکل پر پھرنا نہیں‘

ہم نے اس حوالے سے جمعیت علمائے اسلام ف کے فاٹا کے جنرل سیکرٹری مفتی اعجاز شنواری سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، ''ہم احتجاج کرنے والوں کے ساتھ ہیں، ان کی بھرپور تائید کرتے ہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،''خواتین کا کام گھر کے پردے میں بیٹھنا ہے سائیکل پر پھرنا نہیں۔ اگر خواتین سائیکل چلاتی پھریں گی تو امور خانہ داری کون چلائے گا۔ قبائلی خواتین کو ایسی بیہودہ چیز کی ضرورت نہیں۔‘‘


کیا قبائلی خواتین کو سائیکل چالنے کا حق نہیں؟

ڈاکٹر فرید پراچہ اور مفتی اعجاز شنواری دونوں کا موقف تھا کہ قبائلی علاقوں میں خواتین کو سائیکل کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ مذکورہ کیمپ کی مقامی منتظم اور سماجی کارکن جمائمہ آفریدی کا کہنا تھا، ''کیا قبائلی خواتین برابر کی شہری نہیں؟ جو حقوق کسی بھی آزاد شہری کو حاصل ہیں قبائلی خواتین بھی ان کی برابر کی حق دار ہیں۔‘‘

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں،''مغربی ایجنڈے یا فحاشی کے فروغ جیسے تمام الزامات بے بنیاد ہیں۔ تمام مہمانوں کا قیام ہمارے گھر میں رہا۔ ہم نے کیمپ لگاتے ہوئے سماجی روایات پامال نہیں کیں مگر ہمیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ آئندہ ایسی سرگرمی کی تو ذمہ دار آپ خود ہوں گے۔‘‘


لڑکیوں کو سائیکلنگ سے روکنے کا ٹھیکا مذہبی جماعتوں کو کس نے دیا؟

پاکستان میں جہاں ایک طرف مذہبی معاملات میں شدت پسندانہ موقف عام ہے، وہیں جاوید احمد غامدی سمیت بہت سے علماء معتدل خیالات کے حوالے سے معروف ہیں۔ایسے ہی مذہبی سکالرز اور سماجی دانشوروں میں ایک اہم نام خورشید ندیم کا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''دین کے 80 فیصد معاملات انفرادی ہیں۔ وہ فرد نے خود طے کرنے ہوتے ہیں اور یہ اس کا حق ہے جس سے مذہب اسے محروم نہیں کرتا۔‘‘

وہ کہتے ہیں، ’’سائیکل چلانا یا نہ چلانا یہ ہر فرد کی مرضی ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ لڑکیوں کو سائیکلنگ سے روکنے کا ٹھیکا مذہبی جماعتوں کو کس نے دیا؟ وہ کس حیثیت میں اس بات کا تعین کر سکتی ہیں؟”


ڈی ڈبلیو اردو نے ان سے پوچھا کہ آخر مذہبی جماعتیں ہمیشہ ایسے معاملات میں کیوں مداخلت کرتی ہیں؟ تو ان کا جواب تھا، ''ہمارے ملک میں مذہبی جماعتوں کو خاص مقاصد کے لیے طاقت ور بنایا گیا۔ جب تک ریاست نے اپنے فوائد حاصل کیے تب تک مذہبی جماعتیں اپنے پنجے مضبوط کر چکی تھیں۔ پھر جب بھی موقع ملا، انہوں نے طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے مختلف امور میں مداخلت کی۔‘‘

وہ کہتے ہیں، "مذہبی جماعتیں دین کی اپنی اپنی تعبیر بیچ رہی ہیں، جس کا مقصد پاور پالیٹکس میں اپنی قوت برقرار رکھنا اور اس کے ذریعے سے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔‘‘


سائیکل چلانا خواتین کے لیے مفید یا نقصان دہ؟

سوشل میڈیا پر خواتین کے سائیکل چلانے کے حوالے سے صحت کو لاحق خطرات تک کی باتین گردش کرتی ہیں۔ہم نے اس حوالے سے پی ٹی وی پر صحت سے متعلق ایک پروگرام "صحت زندگی” کی میزبان ڈاکٹر شمائلہ غفار سے رابطہ کیا۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ''ایسے تمام دعوے بے بنیاد ہیں۔ مرد ہو یا عورت سائیکلنگ دونوں کے لیے انتہائی مفید ورزش سمجھی جاتی ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا، "ہمارے معاشرے میں خواتین کے پاس گھر سے باہر نکلنے کے مواقع ویسے بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ ایسے میں باہر جا کر سائیکلنگ کرنا نہ صرف جسمانی بالکل نفسیاتی لحاظ سے بھی انتہائی مفید سرگرمی ہے۔ باہر کسی ٹریک یا فطرت کی خوبصورتی سے آراستہ ماحول میں سائیکل چلانا اندر کی گھٹن اور ذہنی تناؤ جیسے مسائل سے نجات کا موثر ذریعہ ہے۔‘‘


خواتین کے لیے وہ ایک اور لحاظ سے بھی سائیکلنگ کو بہت مفید دیکھتی ہیں۔ ’’پیٹ کم کرنے کے لیے سائیکل چلانا ایک نہایت عمدہ ورزش ہے۔ بچے کی پیدائش کے بعد اپنی خوبصورتی اور صحت کے لیے خواتین کو لٹکتے ہوئے پیٹ سے چھٹکارا حاصل کرنا ایک چیلنج ہوتا ہے۔ ایسے میں سائیکلنگ نہایت کارگر ثابت ہوتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔