پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کرنا ’بدنامی‘ کا باعث کیوں؟

خواتین نمائندوں کا کہنا ہے کہ اکثرزیادہ لڑکے پیدا کرنے کی خواہش کثرت اولاد کا سبب بنتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان 2092ء میں 404.68 ملین افراد کے ساتھ اپنی آبادی کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل علامتی تصویر آئی اے این ایس

user

Dw

پاکستان کے صوبہبلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے رہائشی 50 سالہ سردار جان محمد خلجی کواپنے ہاں کثرت اولاد پر فخر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے جنوری میں اپنے ہاں ساٹھویں بچے کا استقبال کیا تھا۔ خلجی کا کہنا ہے کہ وہ تین بیویوں سے 60 بچوں کے باپ بنے ہیں لیکن انہوں نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے مزید تفصیلات پر بات کرنے سے انکار کر دیا۔

افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے رہائشی مستان خان وزیر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے 22 بچے ہیں، جن میں سے کچھ کا انتقال ہو چکا ہے۔ اس 70 سالہ شخص کی بھی تین بیویاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی جوان محسوس کرتے ہیں اور چوتھی بیوی کی خواہش رکھتے ہیں۔


انہوں نے کہا کہ میری تمام بیویاں ایک ہی قبیلے سے ہیں اور یہ کہ ان کی بیویوں میں سے ایک ان کے چھوٹے بھائی کی بیوہ ہیں، جو ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہندوستانی فوجیوں سے لڑتے ہوئے ہلاک ہوا تھا۔ مستان خان وزیر کا کہنا ہے، ''میں مزید بچے پیدا کرنا چاہتا ہوں کیونکہ وہ کافروں اور دشمنوں سے لڑ سکتے ہیں۔ مجھے ایک درجن سے زیادہ بچے پیدا کرنے پر فخر ہے۔'' ان کے بقول وہ اپنی تینوں بیویوں کو الگ الگ رکھتے ہیں، ''میری بیویوں میں سے ایک شمالی وزیرستان، دوسری ڈیرہ اسماعیل خان اور تیسری راولپنڈی میں ہے۔ اگر میں ان کو ساتھ رکھوں گا تو جھگڑیں گی۔''

وزیر کا کہنا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کی ٹیموں نے کبھی ان کے علاقے کا دورہ نہیں کیا: ''اگر وہ آ بھی جاتے تو کوئی ان کی بات نہ مانتا۔ وہ ہمیں مزید بچے پیدا کرنے سے نہیں روک سکتے، یہ اللہ کا دیا ہوا ہے۔''


پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی

ورلڈ بینک کے مطابق سن2021 میں تقریباً 231.4 ملین افراد کے ساتھ پاکستان دنیا کا پانچواں سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا۔ سن 2022 میں اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ (یو این ایف پی اے) نے پاکستان میں عورتوں کی بچے پیدا کرنے کی فی کس شرح تقریباً 3.3 بتائی تھی۔ یہ قدامت پسند اسلامی ملک دنیا میں سب سے زیادہ شرح پیدائش والے ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ہر ایک ہزار افراد میں 22 بچوں کی پیدائش ہوتی ہے۔ ورلڈ پاپولیشن کے جائزے کا تخمینہ ہے کہ 2092ء میں 404.68 ملین افراد کے ساتھ پاکستان اپنی آبادی کی بلند ترین سطح پر پہنچ جائے گا۔

زیادہ بچے پیدا کرنے کا رجحان کیوں ہے؟

بلوچستان اسمبلی کی سابق رکن اسمبلی یاسمین لہڑی کا خیال ہے کہ زیادہ لڑکے پیدا کرنے کی خواہش پاکستانیوں کو کثرت اولاد کی تحریک دینے والے عوامل میں سے ایک ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ قبائلی معاشرے میں لڑکوں کا ہونا حیثیت اور طاقت کی علامت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ زیادہ بیٹوں والے خاندان زیادہ طاقت اور اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ لہڑی نے کہا، ''مرد اس وقت تک بچے پیدا کرتے رہیں گے جب تک کہ ان کے ہاں لڑکے پیدا نہ ہوں۔ اگر ان کی پہلی اور دوسری بیویوں سے بیٹے نہیں ہوتے ہیں تو کچھ لوگ دو یا تین بار شادی کرتے ہیں۔''


ایک اور قانون ساز کشور زہرہ کہتی ہیں کہ کچھ خاندانوں کا خیال ہے کہ زیادہ لڑکے پیدا کرنے سے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے، ''یہی وجہ ہے کہ ان کے زیادہ سے زیادہ بچے ہیں۔ یہ لڑکوں کو فیکٹریوں یا ورکشاپوں میں کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں اور لڑکیاں لوگوں کے گھروں پرکام کرتی ہیں۔'' پنجاب میں نیشنل پروگرام ہیلتھ ایمپلائز ایسوسی ایشن کی مرکزی صدر رخسانہ انور کا خیال ہے کہ مذہبی علماء خاندانی منصوبہ بندی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ زیادہ تر خواتین ہیلتھ ورکرز کو مذہبی دلائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ علماء خاندانی منصوبہ بندی کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں اور اسے اسلام مخالف قرار دیتے ہیں۔

تاہم ملک کی ایک بڑی سیاسی ومذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام اس بات کی تردید کرتی ہے کہ آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنے کی کوششوں کو روکنے کے ذمہ دار علماء ہیں۔ پارٹی کے ایک رہنما محمد جلال الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی پارٹی لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی پر مجبور کرنے پر یقین نہیں رکھتی۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''علماء خاندانی منصوبہ بندی کی مخالفت نہیں کرتے۔ جو بھی ایسا کرنا چاہتا ہے وہ کر سکتا ہے، لیکن لوگوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے بارے میں نہ بتایا جائے اور اگر وہ وہ ایسا نہیں چاہتے تو انہیں مجبور نہ کیا جائے۔''


آبادی کے بوجھ تلے دبی خواتین

معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان کے محکمہ آبادی سمیت سرکاری محکموں کو فنڈز کی کمی کا سامنا ہے اور سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر کی اطلاعات ہیں۔ نیشنل پروگرام ہیلتھ ایمپلائز ایسوسی ایشن کے محمد انور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت خواتین ہیلتھ ورکرز کو مانع حمل ادویات فراہم نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ''متعلقہ سرکاری محکموں کے پاس گولیاں، انجیکشن اور کافی کنڈوم نہیں ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس فنڈز نہیں ہیں۔''

ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں زچگی سے متعلق اموات کو روکنے پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ انور نے مزید کہا، ''ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسی اموات کو روکنا ضروری نہیں ہے لیکن آبادی میں اضافے کو کنٹرول کرنا بھی ضروری ہے۔''


کراچی سے تعلق رکھنے والے ماہر صحت اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق صدر ٹیپو سلطان کا خیال ہے کہ حکام خاندانی منصوبہ بندی کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں، ''اب ایسے مفادات ہیں جن کا تقاضہ ہے کہ آبادی میں اضافے کا مسئلہ یہیں رہے کیونکہ اس سے بین الاقوامی عطیہ دہندگان سے مراعات حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔''

پاکستان میں خواتین کو بچے پیدا کرنے اور بڑے خاندانوں کی پرورش کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ سن 2018ء کے پاکستان نیوٹریشن سروے کا حوالہ دیتے ہوئے، یونیسیف نے پاکستان میٹرنل نیوٹریشن سٹریٹیجی 2022-27 کے عنوان سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تولیدی عمر کی 14.4فیصد خواتین وزن کی کمی، 24 فیصد زائد وزن، 13.8فیصد موٹاپے، 41.7 فیصد خون کی کمی اور چار فیصد وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔


ٹیپوسلطان نے کہا، ''میں نے انتہائی کمزور خواتین کو اکثر حمل ٹھہرتے دیکھا ہے۔ کمزور خواتین کمزور بچوں کو جنم دیتی ہیں، جس سے غذائی قلت کے شکار بچوں کی فوج میں اضافہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں نشوونما بھی رک جاتی ہے۔''

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔