پاکستانی نوجوان غیرقانونی طریقے سے باہر جانے پر مجبور کیوں؟
ماہرین کے مطابق یونان کشتی حادثے کے بعد بھی حکومت پاکستان نوجوانوں کے غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کے اسباب پر توجہ نہیں دے رہی ہے۔ اس کی توجہ صرف گرفتاریوں، مقدمات اور تفتیشی سرگرمیوں تک مرکوز ہے۔
پاکستان میں ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان نے یونان کشتی حادثے کے بعد محض گرفتاریوں، مقدموں اور تفتیشی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے لیکن ان بنیادی مسائل کے حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی جن کی وجہ سے نوجوان غیرقانونی طریقے سے باہر جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی(ایف آئی اے) ادارے کے ایک افسرمنعم بشیر چوہدری نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ ایف آئی اے نے پاکستان کی حکومت کی ہدایت پر ملک بھر میں انسانی اسمگلروں اور پیسے لے کر غیر قانونی طور پر لوگوں کو باہر بھجوانے والوں کے خلاف ایک بڑی مہم شروع کررکھی ہے۔ اس سلسلے میں تمام متعلقہ اسٹاف فیلڈ میں اپنی سرگرمیاں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔
ان کے بقول فیلڈ سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں متعدد انکوائریوں پر کام جاری ہے اوراب تک 80 سے زائد مقدمات درج کرکے درجنوں ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ایف آئی اے کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق غیر قانونی طور پر پاکستان کے باہر بھیجنے والے گروہوں کا کئی عالمی نیٹ ورکس کے ساتھ رابطوں کا بھی انکشاف ہوا ہے اور اس سلسلے میں بیرون ملک موجود ملزمان کی گرفتاری کے لئے متعلقہ اداروں کے ساتھ رابطہ کرکے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کئے جا رہے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ غیر قانونی طور پر باہر بھجوانے والوں کے خلاف ایف آئی اے کی کاروائیاں اپنی جگہ لیکن یہ محض رد عمل کی پالیسی ہے۔ ان کے خیال میں حکومت کو ان مسائل کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی جس کی وجہ سے نوجوان اپنی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔حکومت کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ نوجوان اپنے مستقبل سے کیوں مایوس ہو کر ملک سے جا رہے ہیں۔ ان کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرے، انہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار کرنے کے لئے قرضے فراہم کرے، انہیں چھوٹے کاروبار کرنے کی تربیت فراہم کی جائے۔حکومت اپنی گوورننس بھی بہتر بنائے، امیر اور غریب میں معاشی تفاوت کم کرے۔
سلمان عابد کا کہنا تھا،"یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ ہزاروں نوجوان حکومتی اہلکاروں کی ملی بھگت کے بغیر اتنی بڑی تعداد میں ایجنٹوں کے ذریعے ملک سے باہر چلے جائیں اور کسی کو کانوں کان اس کی خبر نہ ہو۔ حکومت کو اپنے اداروں کی بھی تطہیر کرنا ہو گی۔" پاکستان کے ممتاز ماہر تعلیم اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اصغر زیدی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بہتر مستقبل کی تلاش میں ملک سے باہر جانا کوئی گناہ نہیں لیکن اگر یہی بچے تعلیم حاصل کرکے کوئی پیشہ وارانہ ہنر سیکھ لیں تو ان کے کئی یورپی اور خلیجی ملکوں میں قانونی طریقے سے جانے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ غیر قانونی طریقوں سے باہر جانے کے رجحان کی روک تھام کے لئے تعلیمی اداروں اور اساتذہ کا کردار بھی اہم ہے۔ ہم نے حال ہی میں "چراغ سے چراغ تک" کے نام سے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ایک پراجیکٹ کیا تھا جس کے ذریعے یونیورسٹی طلبہ کو شہری اور سماجی ذمہ داریوں کے حوالے سے آگاہی فراہم کی گئی اور انہیں پابند کیا گیا کہ وہ یہ معلومات کمیونیٹی میں جا کر دوسرے بچوں کے ساتھ بھی شئیر کریں۔"
ڈاکٹر اصغر زیدی کی تجویز ہے کہ انسانی اسمگلنگ سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ایسا پراجیکٹ شروع کیا جانا چاہئیے جس کے تحت وہاں کے نوجوانوں کو ملک میں موجود تعلیمی اور کاروباری مواقع سے آگاہی فراہم کی جاسکے اور اپنا سب کچھ بیچ کر باہر جانے کے خواہشمند بچوں کو یہ بھی بتایا جانا چاہئیے کہ باہر کی دنیا میں سب اچھا نہیں ہے۔ وہاں غیر قانونی طور پر جانے والوں کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا، "یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس مسئلے کو اپنی تحقیق کا حصہ بنائیں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کس عمر کے بچے، کن وجوہات کی بنا پر، کس کس طریقے سے باہر جارہے ہیں اور ان سے بات چیت کرکے ہم معلوم کریں کہ ان پر وہاں کیا گذرتی ہے۔ اس طرح کوئی موثر پالیسی بنانے کے لئے ہم حکومت کی بھی مدد کر سکتے ہیں۔"
ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر تعلیم عمران اشرف نے غیر قانونی طور پر باہر جانے والوں کے معاملے کو اپنی ایم فل کے مقالے کا موضوع بنایا تھا۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ غیر قانونی طور پر باہر جانے والوں کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ایسے نوجوان ہوتے ہیں جنہیں تعلیم سے کم دلچسپی ہوتی ہے اور وہ تعلیم چھوڑ کر اپنے گلی محلے کے دوستوں سے مشورہ کرتے ہیں جو انہیں ایجنٹ کے پاس جانے کا مشورہ دیتے ہیں۔
ان کے بقول اس مسئلے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان بچوں کو ہر گلی محلے میں کوئی نہ کوئی ایسا ایجنٹ مل ہی جاتا ہے جو اس طرح کے کام کروانے کا دعوے دار ہوتا ہے۔ لوگ اپنی زمینیں، زیورات اور موٹر سائیکلیں بیچ کر اس کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں۔"ان ایجنٹوں سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ خود ان کے پاس آئے تھے ہم کوئی ان کے پاس گھر تو نہیں گئے تھے۔"
عمران اشرف بتاتے ہیں کہ وہ اپنے نجی تعلیمی ادارے میں سال کے شروع میں فرسٹ ائیر میں سو فی صد داخلے کرتے ہیں اگلے سال معلوم ہوتا ہے کہ چالیس فی صد بچے ان ایجنٹوں کی وجہ سے تعلیم چھوڑ گئے ہیں۔ ان کی رائے میں اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں ایسے بچوں کی کونسلنگ کی جائے۔ ان کے خیال میں کوئی ادارہ اکیلا یہ کام نہیں کر سکتا والدین، اساتذہ، میڈیا، سول سوسائٹی اور حکومت سب مل جل کے کوشش کریں گے تب ہی یہ مسئلہ حل ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ این جی اوز صحت، تعلیم اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے تو کام کرتی ہیں لیکن کوئی موثر این جی او نوجوانوں کے اسمگلنگ کے انسداد کے لئے کام کرتی دکھائی نہیں دیتی۔
عمران اشرف کا کہنا تھا،"ملک کے خلاف نا امیدی پیدا کرنے والے الفاظ نہیں بولنے چاہیئں کہ یہ ملک تو کبھی بھی بہتر نہیں ہوگا۔بچے کا دل تعلیم میں نہیں لگتا، معاشرہ بتاتا ہے کہ وہ یہاں کبھی ترقی نہیں کر سکے گا ماں باپ کہتے ہیں کہ کما کے لا، اس سارے دباو میں باہر جانے والا شارٹ کٹ نوجوانوں کو واحد حل دکھائی دیتا ہے۔"
کئی لوگوں کا خیال ہے کہ جب بھی قانونی طور پر باہر جانے کے لئے سختی کی جاتی ہے تو غیر قانونی طور پر باہر جانے والے افراد کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ پولیس ڈیلروں کی پکڑ دھکڑ کرے تو ڈیلرز کم رہ جاتے ہیں اور وہ باہر بھیجنے کا ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ غیرقانونی طور پر باہر جانے والوں پر کوئی فلم کوئی ٹی وی ڈرامہ یا کوئی ایسی ڈاکیومینٹری بنائی جائے جس سے عوام میں آگاہی پیدا ہو۔ محض بیانات دینے، تلقین کرنے اور سزائیں دینے سے لوگوں کے ذہن نہیں بدلیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔