عمران خان کا محتاج سیاسی بیانیہ

ملک معاشی بدترین بدحالی کا شکار ہے۔ سیاست دان عوامی مشکلات کو بقول ان کے خوب سمجھتے ہیں تو پھر اپنے سیاسی بیانیے کو خان سے شروع کر کے خان پر ختم کر لینے سے ویوز تو شاید مل جائیں، ووٹ ملنا مشکل ہے۔

عمران خان کا محتاج سیاسی بیانیہ
عمران خان کا محتاج سیاسی بیانیہ
user

Dw

آپ کو وہ منظر یاد ہو گا، جب ایئرپورٹس پر تمام تر سیاسی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے وی وی آئی پی انتظامات کیے گئے، ہیلی کاپٹر کے لیے خاص رن وے تیار کیا گیا اور سب سے زیادہ اہم وہ منظر جب ہیلی کاپٹروں کے ذریعے گل پاشی کی گئی، مگر کس پر؟ ارے نہیں یہ ہالی وڈ کی کسی مووی کا سین بیان نہیں بلکہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعت ن لیگ کے قائد کی خود ساختہ چار سالہ جلاوطنی کے بعد وطن واپسی کے مناظر ہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھیے گا کہ ن لیگ برسراقتدار نہیں ہے تو پھر کس نے میاں نواز شریف کے لیے عوامی وسائل کو بے دریغ استعمال کیا؟ ٹھہریے "میں سب سے پہلے 9 مئی کے واقعات کی سختی سے مذمت کرتی ہوں‘‘۔

مینار پاکستان میں ن لیگ کے مطابق پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے کی تیاریاں تھیں، جس شیر کی آمد تھی، اسے دیکھنے سے زیادہ لوگ سننے کے منتظر تھے کہ آخر خان کی قید اور پی ٹی آئی کو سیاسی منظر نامے سے مکمل غائب کر کے قائد ن لیگ عوام سے ووٹ مانگنے کے لیے کیا بیانیہ لے کر وطن پلٹے ہیں۔


وہ آپ نے اسی جلسے میں ن لیگ کا نیا پارٹی ترانہ بھی ضرور سنا ہو گا۔ مگر سوال یہ ہے کہ ن لیگ کو یہ ڈی جے وغیرہ کی ضرورت کب محسوس ہوئی اور کیوں؟ نواز شریف کی تقریر شروع ہوئی بات پچھلی حکومت (جو ان کے اپنے بھائی کی قیادت میں تھی) پر تنقید سے شروع ہوئی اور تحریک انصاف کی خواتین کے موازنے پر ختم، یہی نہیں میاں صاحب جاتے جاتے یہ بھی بتا کر گئے کہ ان کے پاس بھی تسبیح ہے، بس وہ خان کی طرح دکھاوا نہیں کرتے۔

غور کیجئے کہ پیپلز پارٹی، ن لیگ، یا کسی بھی اور سیاسی جماعت کے پاس اس وقت خود کو اہل جماعت ثابت کرنے کے لیے کیا نیا بیانیہ ہے؟ موجودہ حکومت نے پی ٹی آئی کی ڈیجیٹل میڈیا ٹیم اور سیل پر سب سے زیادہ تنقید کی۔ یہاں تک کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کے ذریعے یہ تک ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ یہی ڈیجیٹل سیل، نوجوانوں کے ذریعے انتشار کو فروغ دیتا تھا اور دوسری جانب پیپلز پارٹی اور ن لیگ خود بھی اپنے ڈیجیٹل میڈیا سیل کو باقاعدہ ایکٹیو کر چکے ہیں۔


بریانی کی پلیٹوں پر جلسوں میں بلانے والے غریب لوگوں کے بعد جب پڑھے لکھے گھرانوں کی کمی محسوس ہوئی تو خان صاحب کی طرح اپنے ڈی جے اور پارٹی ترانے، مفلر، ٹوپیاں یہاں تک کے کرتے بھی پرنٹ کروا لیے مگر خان کے جلسے والے جوش کہیں سے خرید نا سکے۔ اسی لیے اپنی خفت کو مٹانے کے لیے ہر بار تحریک انصاف کے جلسے میں شریک خواتین کی کردار کشی کو اپنے سیاسی بیانیے کو مضبوط بنانے کے لیے ہتھیار بنایا جاتا رہا۔

کیا کسی بھی سیاسی جماعت کو زبردستی دبا کر اپنی من پسند جماعت کے لیے وزارت اعلی کی کرسی کا انتخاب کرنے والے اس بات سے لاعلم ہیں کہ فوجی ریفرنڈم اور جرنل الیکشن میں بہت واضح فرق ہوتا ہے یا پھر اس حقیقت سے منکر ہیں کہ بچ جانی والی سیاسی جماعتوں کے پاس ہر سیاسی بیانیہ خان پر تنقید سے شروع یو کر، 9 مئی کی مذمت پر اور انہیں ملک دشمن ثابت کرنے پر ختم ہو جاتا ہے۔


خالی خزانہ، مشکل معاشی حالات، ملکی قرضہ، مہنگائی اور ان سب کا ذمہ دار صرف خان! مریم نواز ہو یا بلاول، کیا وہ اس بات سے انکار کریں گے کہ انہیں نوجوان کی نبض پکڑنا خان نے سکھایا یا پھر عوام اس بات کی گواہ نہیں کہ خاندانی رئیس ان نوجوان سیاستدانوں کو اے سی والے کمروں سے نکال کر عوام میں لانے والے بھی خان ہی ہے۔

پھر سنائیے مجھے، ن لیگ کا کوئی ایک سال کا پالن یا پھر پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا اور مکان کے سالوں پرانے نعرے کے علاوہ کوئی معاشی خود مختاری کا پلان یا پھر مولانا فضل الرحمن کی جانب سے ان کے علاقے کی ترقی کا کوئی حل؟ اس مملکت خداداد میں بسنے والے عام انسان ان تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک مہرہ ہے اور پانچ سال بعد دو سے پانچ ہزار روپے میں بک جانے والے ایک پتال۔ انقلاب سب کو اچھا لگتا ہے، شعور کی گھنٹیاں بہت سے ذہنوں میں بج رہی ہیں، سچائیاں سب کے سامنے عیاں ہیں مگر 9 مئی جیسے واقعے کے زیر عتاب آئی صنم جاوید، یاسمین راشد، خدیجہ اور بہت سے نوجوانوں کی حالت زار دیکھ کر اب نوجوان تبدیلی کا نعرہ سیاست کے لیے نہیں بلکہ ملک سے باہر جانے کے لیے لگا رہے ہیں مگر ہماری سیاسی جماعتیں اور ان کی ڈوریاں ہلانے والے سب اس وقت بھی خان کی شہرت سے نہ صرف خوف زدہ ہیں بلکہ متاثریں بھی۔ اسی لیے شاید سانحہ لمز جیسے واقعات 9 مئی کے زخم تازہ کرتے ہیں اور پھر یہ سیاسی جماعتیں خان مخالف بیانیے کو بڑے جلسوں میں بیان کرکے عوام کو متاثر کرنے کی بجائے شاید اپنے خوف کو دبانے کہ تگ و دو میں ہیں۔


سیاست میں مخالف بیانیے پر تنقید بلاشبہ اپنے بیانیے کی مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہے مگر صرف تنقید۔ پی ٹی آئی کے نام سے عوام کو خوف زدہ کر دیا گیا ہے۔ اس تمام صورتحال میں ہمدردیاں سمیٹ لینا آسان ہوگا لیکن ووٹر کو ووٹ ڈالنے پر آمادہ کرنا بحرحال مشکل ہوگا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔