بحران زدہ افریقی ملک بنین جہادیوں کے لیے نئی صف اول کیسے بنا؟

مغربی افریقی ملک بنین ایک ایسے سکیورٹی بحران کا مرکز بن چکا ہے، جو ساحل کے خطے سے جنوب کی طرف بڑھتے ہوئے وہاں تک پہنچا۔

بحران زدہ افریقی ملک بنین جہادیوں کے لیے نئی صف اول کیسے بنا؟
بحران زدہ افریقی ملک بنین جہادیوں کے لیے نئی صف اول کیسے بنا؟
user

Dw

بنین میں فرانسیسی زبان بولی جاتی ہے اور اس ملک کے شمال مغرب میں آتاکورا کے پہاڑی علاقے میں تانگوئی ایتا اور پورگا کے شہروں کو تین مختلف چیک پوسٹوں نے تقسیم کر رکھا ہے۔ آج وہاں ساٹھ کلومیٹر طویل علاقائی شاہراہ پر اکثر بکتر بند گاڑیاں حفاطتی گشت کرتی نظر آتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ دسمبر 2021ء سے لے کر اب تک وہاں ملکی سکیورٹی فورسز پر انتہا پسند چار بڑے مسلح حملے کر چکے ہیں۔

ساحل کے خطے کا سب سے طاقت ور جہادی گروہ

شمال مغربی بنین میں عسکریت پسندوں کے ملکی سکیورٹی دستوں پر خونریز حملوں کا ذمے دار 'اسلام اور مسلمانوں کے حامی گروپ‘ نامی اس تنظیم کو قرار دیا جاتا ہے، جسے مختصراﹰ JNIM کہا جاتا ہے۔ شدت پسند مسلمانوں کی اس تنظیم کو افریقہ میں ساحل کے علاقے کا سب سے طاقت ور جہادی گروہ بھی سمجھا جاتا ہے۔


اس عسکریت پسند گروہ کے اچانک کیے جانے والے حملوں میں آتشیں ہتھیاروں کے علاوہ دیسی ساخت کے بم بھی استعمال کیے گئے اور ان حملوں میں بنین کی فوج کو کافی جانی نقصان بھی ہوا۔ علاقے میں سلامتی کی خراب سے خراب تر ہوتی ہوئی یہ صورت حال مقامی باشندوں کے لیے شدید پریشانی کا باعث بن رہی ہے۔

مرکزی مسجد کے امام کا موقف

پورگا کی مرکزی مسجد کے امام مونُو موسیٰ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''پہلے ہم یہاں بہت پرسکون زندگی کے عادی تھے۔ آج لیکن ہر طرف بے یقینی کی فضا اور عدم تحفظ کا احساس پائے جاتے ہیں۔‘‘ مونُو موسیٰ نے ظہر کی نماز کی امامت کے لیے مسجد کی طرف پیدل چلتے ہوئے بتایا کہ انہیں اور کئی دیگر سرکردہ مقامی شخصیات کو دھمکیاں مل چکی ہیں۔


مونُو موسیٰ نے کہا، ''میں حیران رہ گیا، جب میں نے دیکھا کہ بہت سے نمازیوں نے مسجد آنا بند کر دیا تھا۔ میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ انہیں بھی دھمکیاں دی گئی ہیں۔ ان عام مقامی مسلمانوں نے مجھے بتایا کہ اب انہیں ہتھیار اٹھانا ہوں گے۔ اگر ضروری ہوا تو خنجر اور تلواریں بھی۔‘‘ پورگا کی مرکزی مسجد کے اس خطیب کے مطابق مسلم عسکریت پسند اب مقامی آبادی کے لیے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔

شام سات بجے سے کرفیو

شمالی بنین میں پورگا کے شہر میں ہر شام سات بجے سے اگلی صبح تک کرفیو نافذ رہتا ہے۔ کسی کو بھی رات کے اندھیرے میں گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ نتیجہ یہ کہ مقامی سکیورٹی دستوں اور عسکریت پسندوں کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کی وجہ سے بے یقینی اور عوامی شکوک و شبہات بھی زیادہ ہوتے جا رہے ہیں۔


پورگا کے شہر میں اپنے کلیسائی فرائض انجام دینے والے کیتھولک پادری بھی ایک ہی ہیں، جن کا نام ایگور کاساہ ہے اور انہوں نے وہاں اپنی مذہبی ذمے داریاں گزشتہ برس ستمبر میں سنبھالی تھیں۔ سلامتی کے خدشات کی وجہ سے اس پادری کو ہر ہفتے صرف ایک مرتبہ، یعنی محض اتوار کے روز ہی اجتماعی کلیسائی عبادت کے اہتمام اور قیادت کی اجازت ہے۔

پادری ایگور کاساہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ''ایک مقامی برادری کے طور پر اب ہم اتنے پریشان رہتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے پر بداعتمادی کا اظہار کرنے لگے ہیں اور ہم ایسے عناصر کے بارے میں بات بھی کرتے ہیں، جو ہماری صفوں میں گھس گئے ہوں۔‘‘


بنین کی اسٹریٹیجک اہمیت

مغربی افریقی ملک بنین کے شمالی حصوں کو 2018ء سے مسلم ملیشیا گروپوں کی بڑھتی ہوئی مسلح کارروائیوں کا سامنا ہے۔ براعظم افریقہ کے ساحل کہلانے والے علاقے سے ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصہ قبل جو سکیورٹی بحران شروع ہوا تھا، وہ اب جنوب کی طرف بڑھتا ہوا بنین تک پہنچ چکا ہے

اس علاقے میں جہادی گروہ ملکی اور علاقائی بنیادوں پر اپنی سوچ اور پوزیشنیں بدلتے رہتے ہیں۔ انسٹیٹیوٹ برائے سکیورٹی اسٹڈیز اور افریقی مرکز برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے ماہرین کے مطابق ان شدت پسندوں کی طرف سے کسی ملک کی قومی سرحدوں کے پار سے کیے جانے والے حملے بھی اب کوئی نئی بات نہیں رہے۔


بنین ایسوسی ایشن آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز اینڈ سکیورٹی کے صدر اوسوالڈ پاڈونُو نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''خاص طور پر سرحدی علاقوں میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف جرائم پیشہ گروہوں اور شدت پسند مسلمانوں کی شناختیں آپس میں جیسے کسی پل کے ذریعے جڑ جاتی ہیں۔ ان سرحدی علاقوں میں ہمیں عام مسافر بھی دکھائی دیتے ہیں اور ممنوعہ اشیاء کی اسمگلنگ کرنے والے جرائم پیشہ افراد بھی۔ لیکن بنین کی قومی سرحد سے ملحقہ نائجیریا کے شمال مغربی علاقے میں اغوا کے واقعات بھی اتنے زیادہ ہو چکے ہیں کہ انہیں اب نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

انتہا پسندی کے لیے 'سازگار‘ خطہ

بنین کی آبادی کا غریب ترین حصہ ملک کے انہی شمالی علاقوں میں رہتا ہے۔ کئی قصبوں اور مقامی آبادیوں میں اسکولوں اور ہسپتالوں جیسی بنیادی ڈھانچے کی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ اس خطے کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے انتہائی شدید اثرات کا سامنا بھی ہے۔ طویل عرصے سے اوسط بارشیں بھی کم ہو چکی ہیں اور بار بار کی خشک سالی اور زرعی زمینوں کے ضائع ہوتے جانے سے جنگلات کے خاتمے اور صحراؤں کے پھیلتے جانے کا عمل دونوں تیز ہو چکے ہیں۔


انتہائی تشویش ناک بات یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر جنگلات اور ان کے رقبے کے تناسب پر نظر رکھنے والی تنظیم گلوبل فاریسٹ واچ کے اعداد و شمار کے مطابق 2000ء سے لے کر اب تک بنین اپنے ہاں مجموعی جنگلاتی رقبے کے 20 فیصد سے بھی زائد سے محروم ہو چکا ہے۔ یہ صورت حال شمالی بنین مین مختلف برادریوں کے مابین تنازعات میں اضافے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ اسی سال جنوری میں وہاں مقامی کسانوں اور نیم خانہ بدوش گڈریوں کے قبیلوں کے مابین خونریز لڑائی بھی ہوئی تھی۔

غربت، محرومی، شدید نوعیت کے موسمی حالات اور ماحولیاتی تبدیلیاں، شمالی بنین میں قدم جمانے والے عسکریت پسند، جہادی اور جرائم پیشہ گروہ انہی عوامل کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے خود کو مضبوط بنانے کی کوششوں میں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔