انسان تشدد کیوں کرتا ہے؟
احتجاج کرتے ہوئے گاڑیاں جلا ڈالنا، عمارتوں پر حملے، ٹائرنذرآتش کرنا، مخالف کو پیٹنا، حتیٰ کہ عام سے حالات میں کسی پر ہاتھ اٹھا دینا۔ ان سب رویوں کی وجہ کیا ہے؟
معروف برطانوی فلسفی اور ریاضی دان ایلن ٹورنگ نے کہا تھا، ''آپ جانتے ہیں کہ لوگ تشدد کیوں پسند کرتے ہیں؟ کیوں کہ تشدد کر کے لوگوں کو اچھا محسوس ہوتا ہے۔ تشدد سے لوگوں کو اطمینان ملتا ہے۔ آپ تشدد سے اطمینان نکال دیں، تو یہ سارا عمل خالی پن میں بدل جائے گا۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان ایک پرتشدد مخلوق ہے۔ گھریلو تشدد سے لے کر بڑے پیمانے پر عالمی جنگیں، یوں لگتا ہے جیسے جارحیت ایک بنیادی انسانی رویہ ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پرتشدد رویہ ہماری جبلت ہے؟ یا ہم اسے سیکھتے ہیں؟
بہت سے جانور ہیں جو خوراک یا دیگر جبلی وجوہ کی بنا پر غصے، جارحیت یا پرتشدد رویے کا اظہار کرتے ہیں۔ مگر ان کی نیت کسی کو شدید زخمی کرنا یا قتل کرنا نہیں ہوتی۔ عموماﹰ جانور ایسے پرتشدد رویے اپنی اسپیشیز کے تیئں نہیں بلکہ دیگر انواع کے خلاف روا رکھتے ہیں۔
مگر انسان اور چمپینزیز اس حوالے سے دو غیرعمومی استثنائی مخلوقات ہیں۔ ابتدائی انسانوں کی طرح چمپینزیز بھی چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر رہتے ہیں، جہاں ہر ایک کا انحصار دوسرے پر ہوتا ہے۔ لیکن کوئی بندر کسی گروپ سے نکل کر کسی دوسرے گروپ میں شامل ہو سکتا ہے یا خود اپنا ایک الگ گروہ بنا سکتا ہے۔ اور ایسا بھی ممکن ہے کہ کسی روز وہ اپنے گروہ کے سامنے جا کھڑا ہو اور ایک ایسے گروہ جس میں وہ پلا بڑا ہو، اسے کے ارکان کو موت کے گھاٹ اتارنے میں بالکل بھی عار محسوس نہ کرے۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ چیمپینزیز کے گروہ اپنے علاقوں کی حدود کے قریب چھاپا مار گروپ تشکیل دیتے ہیں، جہاں ایک نر بندر گشت کرتا ہے اور پڑوسی گروہ کے ارکان کی تلاش میں مصروف رہتا ہے۔ جہاں اسے ایسا کوئی بندر ملے وہ اس پر حملہ کر دیتا ہے اور اسے شدید زخمی کرنے یا مار دینے سے کم پر اکتفا نہیں کرتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بندروں کے ایسے گروہوں میں نر بندر پرتشدد اور جارح ہوتے ہیں۔ انسانی معاشروں کا حال بھی مختلف نہیں۔ مطالعاتی جائزوں کے مطابق مختلف معاشروں میں خواتین کے مقابلے میں آدمی کہیں زیادہ شدید نوعیت کے پرتشدد جرائم میں ملوث ہوتے ہیں۔
ایسی صورت حال میں اس سوال کا جواب انتہائی مشکل ہے کہ آیا انسان پرتشدد رویے جبلتوں کی صورت میں لے کر پیدا ہوتا ہے یا پیدا ہونے کے بعد سیکھتا ہے۔ کیوں کہ ارتقائی نفسیات سے جڑے سائنسدانوں کا خیال ہے کہ پرتشدد جبلت انسانوں خصوصاﹰ مردوں میں اپنے جد سے آئی ہے تاہم یہ خیال مان لیا جائے تو بھی اس رویے کی مکمل وضاحت ایک پیچیدہ عمل ہو گی۔
جبلت، رویہ اور تشدد
یہ کہہ دینا کہ تشدد ہمارے ارتقائی عمل کا حصہ ہے، اس معاملے کی غیرضروری حد تک آسان وضاحت سے زیادہ کچھ نہیں۔ کیوں کہ اگر انسان فطری طور پر تشدد پسند ہوتا، تو ہمارے لیے ایک ہزاریہ بھی زندہ رہنا دشوار ہوتا۔ پھر مزید غور کریں تو اس سے بھی زیادہ پیچیدہ سوالات ہمارے سامنے آن پہنچتے ہیں۔ کیا ہماری پرتشدد فطرت ہمارے اندر کہیں بہت نیچے دبی ہوتی ہے، جو بس موقع ملتے ہی باہر آ جاتی ہے؟ کیا ہم تشدد دوسروں سے سیکھتے ہیں؟ کیا ہماری سماجی گروہ بندی ہمیں تشدد سے باز رکھتی ہے؟ یا اس گروہ بندی کی وجہ سے ہم تشدد کی جانب مائل ہوتے ہیں؟
اس سلسلے میں ثقافتی اقدار، ایمان، مذہب، سماجی روایات اور بہت سے دیگر عناصر غیرمعمولی اہمیت کے حامل ہیں۔ دنیا میں اب بھی ایسے کئی قبیلے موجود ہیں، جو مخالف گروہوں کے حوالے سے ہرگز کوئی جارح ٹیمیں تشکیل نہیں دیتے۔ ایسے قبیلے بھی ہیں، جو دیگر گروہوں کے حوالے سے تو پرتشدد رویوں کے حامل نہیں، مگر ان قبیلوں کے اپنے اندر ایک دوسرے کو قتل کرنے یا زخمی کرنے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر ایسے قبیلے اب بھی موجود ہیں، جو بہ ظاہر بے حد پرامن اور غیرجارح ہیں، مگر وہاں جادوٹونے کے الزام پر اپنے ہی قبیلے کے کسی رکن کو قتل کرنے میں بالکل عار نہیں محسوس نہیں کی جاتی۔
تشدد تمام ہی انسانی معاشروں میں کسی نہ کسی صورت اور کسی نہ کسی سطح پر موجود ہے جب کہ تشدد، حملوں اور جارحانہ رویوں کی کئی وجوہات ممکن ہیں، مگر ایک شے شاید بہت واضح ہے اور وہ یہ کہ تشدد کسی نہ کسی صورت میں 'اطمینان‘ سے جڑا ہوا ہے۔ جس جس معاشرے میں تشدد سے اطمینان کا عنصر کم کیا جاتا رہے گا، وہاں پرتشدد رویوں کی شرح بھی اسی نسبت سے کم ہوتی جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔