ججوں اور جرنیلوں کی مراعات کیوں ختم نہیں ہو سکتیں؟
پاکستان میں مہنگائی اور بڑھتی ہوئی اقتصادی مشکلات کے تناظر میں کئی حلقے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکمران طبقات کے لیے یونٹس سمیت تمام طرح کی مراعات ختم کی جائیں۔
پاکستانی وزارت توانائی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین کو ملنے والے فری یونٹس کو مالی معاوضے میں بدل دیا گیا ہے۔ لیکن کئی حلقوں میں سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے اس فری یونٹس کی سلسلے کو مکمل طور پرختم کیوں نہیں کیا جا سکتا۔
واضح رہے پاکستان میں اعلیٰ طبقات سے تعلق رکھنے والے افراد، جرنیلوں، ججوں اور افسر شاہی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بے پناہ مراعات حاصل ہیں۔ کچھ برس قبل یو این ڈی پی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاکستانی حکومت اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے خاندانوں کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی سبسڈی دیتی ہے جبکہ غریب آدمی کے لیے ہر طرح کی سبسڈی ختم کی جا رہی ہے۔
وزارت توانائی کےسیکرٹری راشد محمود لنگڑیال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ درست ہے کہ ہم نے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین کو جو فری یونٹس مل رہے تھے، ان کو مالی معاوضے میں بدل دیا ہے۔‘‘
بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں میں گریڈ 17 کے ملازمین کو 400 یونٹس، گریڈ 18 والوں کو 600 یونٹس، گریڈ 19 والوں کو 880 یونٹس، گریڈ 20 والوں کو 1100 یونٹس اور گریڈ 21 والوں کو 1300 یونٹس ہر ماہ مفت ملتے تھے۔ اب گریڈ 17 والوں کو 15858 روپے، گریڈ 18 والوں کو 21996 روپے، گریڈ 19 والوں کو 37594،گریڈ 20 والوں کو 46992 اور گریڈ 21 والوں کو 55536 روپے ماہانہ اضافی ملیں گے۔
وزارت توانائی کے ایک اعلیٰ عہدے دار سے جب پوچھا گیا کہ ججوں اور جرنیلوں کے لیے ایسے فری یونٹس کیوں نہیں ختم کیے جا سکتے، تو اس عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا، ''ججوں اور جرنیلوں اور افسر شاہی کے افراد کو بجلی پیدا کرنے والی کمپنیاں مفت یونٹس نہیں دیتیں بلکہ ان کی متعلقہ وزارتیں دیتی ہیں۔‘‘
سول سوسائٹی میں کئی جانب سے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ فری یونٹس کو مکمل طور پر ختم کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر شعیب شاہین ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ نہ صرف فری یونٹس ختم کرنے چاہییں بلکہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی جو سبسڈی اشرافیہ کو ملتی ہے اس کو بھی فوری طور پر ختم کرنا چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ایک طرف غریب آدمی بھوک و افلاس اور مہنگائی سے مر رہا ہے دوسری طرف ہماری اشرافیہ کے افراد غریبوں کے ٹیکس پر سبسڈیز حاصل کر رہے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین اور وزیراعظم نہ صرف بیرونی سیر سپاٹے کر رہے ہیں بلکہ ناقابل تصور مراعات بھی لے رہے ہیں۔‘‘
شعیب شاہین کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اضافی کاروں کو واپس کر کے ایک اچھی مثال قائم کی ہے: ''ضرورت اس امر کی ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز اور چیف جسٹس رضاکارانہ طور پر فری بجلی یونٹس کو بھی لینا بند کریں اور دوسرے اداروں کے سربراہ بھی دستبردار ہوں تاکہ دوسروں کے لیے اچھی مثال قائم کی جا سکے۔‘‘
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اور معروف سیاست دان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا ہے کہ جرنیلوں سے یہ فری یونٹس کوئی نہیں لے سکتا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس ملک میں نوکر شاہی اور جرنیلوں کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں اس لیے ان سے یہ مراعات واپس نہیں لی جا سکتیں۔‘‘ اسلم رئیسانی کے مطابق پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار زراعت ادا کرتی ہے: ''ضرورت اس امر کی ہے کہ ان سبسڈیز کو ختم کرکے اس کا رخ زراعت کی طرف موڑا جائے۔‘‘
پشاور الیکٹرک کمپنی میں پیغام یونین کے سابق عہدے دار قیصر خان کا کہنا ہے کہ بہت سارے افسران پہلے ہی میٹروں میں رد و بدل کرتے ہیں، اس لیے اس مالی معاوضے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، ''ایک طرف افسران بجلی بھی چوری کریں گے اور دوسری طرف انہیں مالی معاوضہ بھی ملے گا اس سے بجلی کی کمپنیوں پہ بوجھ مزید بڑھے گا۔ ‘‘ ان کا کہنا تھا کہ بحیثیت ایک ٹریڈ یونینسٹ وہ سمجھتے ہیں کہ مرات یافتہ طبقے کی بجلی یونٹس سمیت تمام مراعات کو ختم کیا جائے اور اس پیسے کو غریب عوام پہ لگایا جائے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔