انگیلا میرکل کی جگہ کون ہو سکتا ہے جرمن کا اگلا چانسلر؟
جرمنی کی سب سے گنجان آباد وفاقی ریاست نارتھ رائن ویسٹ فالیا کے وزیر اعلیٰ الیکشن جیت کر اگلے چانسلر بن سکتے ہیں۔ اس وقت انہیں چھبیس ستمبر کے عام انتخابات میں کئی قسم کے سیاسی چیلنجز کا سامنا ہے۔
انگیلا میرکل کے سیاست سے کنارہ کش ہونے کے اعلان کے بعد سے یہ عام تاثر تھا کہ نارتھ رائن قیسٹ فالیا کے وزیر اعلیٰ ملک کے اگلے چانسلر بن سکتے ہیں۔ یہ کئی لوگوں کا خیال بھی رہا ہے۔ لاشیٹ موجودہ جرمن پارلیمنٹ کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو کے سربراہ ہیں۔ رائے عامہ کے جائزوں میں انہیں فی الوقت دوسری پوزیشن حاصل ہے۔
آرمین لاشیٹ دباؤ کا شکار
ساٹھ سالہ جرمن سیاست دان کا تعلق ایک ایسے صوبے یا ریاست سے ہے، جہاں سے اب تک ملک کے آٹھ چانسلروں میں سے صرف ایک چانسلر کا تعلق تھا، جو چانسلر کے منصب پر براجمان ہو سکا۔
سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا کہ وسطِ جولائی میں ان کے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فالیا میں سیلاب نے قیامت برپا کر دی۔ اس سیلاب میں ناقص حکومتی عمل اور انتظامات نے ان کی مقبولیت کو بہت زیادہ کم کر دیا۔ اس سیلاب میں 180 انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور مالی نقصان بے بہا ہوا۔ تب سے آرمین لاشیٹ کو شدید سیاسی دباؤ کا سامنا ہے۔
اسی دوران سیلاب سے متاثرہ مقام کے دورے پر گئے ملکی صدر فرانک والٹر شٹائن مائر ایک متاثرہ مقام پر تباہ کاریوں پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے تو پیچھے کھڑے وزیر اعلیٰ لاشیٹ کچھ دوسرے افراد کے ساتھ کسی بات پر قہقہہ لگا رہے تھے۔ اس فوٹیج نے بھی ان کی مقبولیت میں کمی لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
میرکل کے با اعتماد رفیق
آرمین لاشیٹ کو رواں برس جنوری میں سی ڈی یو کی قیادت سونپی گئی تھی۔ مبصرین کا خیال تھا کہ انہیں یہ منصب انگیلا میرکل کی حمایت سے ملا۔ لاشیٹ ماضی کے قانون دان ہونے کے علاوہ سابق جرنلسٹ بھی ہیں۔ سن 2012 سے اب تک وہ ان پانچ سیاستدانوں میں شامل ہیں جو پارٹی کے نائب چیئرمین ہیں۔ انہیں سبکدوش ہونے والی چانسلر انگیلا میرکل کا ایک قریبی ساتھی اور بااعتماد رفیق بھی قرار دیا جاتا ہے۔
جرمنی کی ایک چوتھائی آبادی نارتھ رائن ویسٹ فالیا میں بستی ہے اور وہ اس وفاقی ریاست کے گزشتہ اٹھارہ ماہ سے وزیر اعلیٰ ہیں۔ میرکل کی طرح لاشیٹ بھی مرکزیت کے قائل ہیں کہ کامیابی کے لیے ایک مضبوط مرکزی حکومت ضروری ہے۔
لاشیٹ بمقابلہ زوئڈر
آرمین لاشیٹ کو سی ڈی یو کی قیادت اس وقت سونپی گئی جب انہوں نے باویریا کے مقبول سیاستدان مارکوس زوئڈر کو پارٹی الیکشن میں شکست دی تھی۔ زوئڈر کا تعلق جنوبی جرمن صوبے باویریا کی سیاسی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) سے ہے۔ یہ قدامت پسند کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی سسٹر پارٹی قرار دی جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد باویریا کی سیاسی جماعت کا ملکی سیاست میں کلیدی کردار رہا ہے۔
دوسری جانب مارکوس زوئڈر کا پروفائل ظاہر کرتا ہے کہ انہیں ایک جامع صفت اور مستقبل کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے سیاستدان کے طور پران کے حامیوں کی جانب سے سامنے لایا گیا تھا۔ ان کے ناقدین ان کے پروفائل کے تناظر میں انہیں کسی حد تک 'موقع پرست‘ قرار دیتے ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت بھی 54 سالہ زوئڈر رائے عامہ کے جائزوں میں چانسلر کے منصب کے لیے آرمین لاشیٹ پر بہت بڑی سبقت رکھتے ہیں۔ لاشیٹ کے حامی اپنے لیڈر کو 'فائٹر‘ قرار دیتے ہیں۔
لاشیٹ اور گرین پارٹی
جرمن سیاسی مبصرین کا اتفاق ہے کہ اگر آرمین لاشیٹ کو چانسلر بننا ہے تو انہیں ملک کے قدامت پسند دھڑوں کو اپنے حلقے میں شامل کرنا ہوگا کیونکہ اس وقت ان دھڑوں میں مختلف معاملات پر برہمی غالب ہے۔ ان دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانا بھی ان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
اس صورت حال میں گرین پارٹی کا عروج بھی پریشان کن قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق گرین پارٹی نئی پارلیمنٹ میں دوسری بڑی سیاسی جماعت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
گرین پارٹی اور لاشیٹ کے تعلقات پرانے ہیں۔ جب یہ پارٹی پہلی مرتبہ پارلیمنٹ میں داخل ہوئی تھی تو آرمین لاشیٹ نے سی ڈی یو اور گرین کے درمیان تعلقات استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ وہ اگلی حکومت میں گرینز کے ساتھ بات چیت آگے بڑھا سکتے ہیں۔
آرمین لاشیٹ کے پاس سیاسی تجربہ کافی زیادہ ہے، بمقابلہ میرکل کے، جب وہ پہلی مرتبہ چانسلر بنی تھیں۔ وہ سیاسی طور پر مقامی سطح سے منتخب ہو کر یورپی پارلیمان تک پہنچ چکے ہیں۔
ان کا بچپن بیلجیئم میں گزرا ہے اور اس تناظر میں انہیں ایک یورپی شخصیت قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے خاندان کی جڑیں بھی بیلجیئم میں موجود ہیں۔ وہ فرانسیسی زبان بھی روانی سے بول سکتے ہیں۔ وہ بطور وزیر اعلیٰ نارتھ رائن ویسٹ فالیا سن 2019 میں امریکا کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔
ان کا مجموعی پروفائل چانسلر کے منصب کے لیے بہت شاندار ہے لیکن اس وقت انہیں ووٹرز کی رائے اپنے حق میں کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے قدامت پسند حلقے کے ساتھ ساتھ خواتین کو بھی فعال کرنا ہے۔ (یہ مضمون جرمن سے ترجمہ شدہ ہے۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔