مودی اور سچن آم کس کی محنت کا پھل؟

بھارتی شہر ملیح آباد میں ایک سو بیس سالہ پرانا آم کا درخت آج تک تین سو سے زائد اقسام کے پھل دے رہا ہے۔ ہر ایک کا ذائقہ، ساخت اور رنگ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اس نایاب درخت کی دیکھ بھال کون کر رہا ہے؟

ایشوریا رائے، نریندر مودی اور سچن ٹنڈولکر آم کس کی محنت کا پھل؟
ایشوریا رائے، نریندر مودی اور سچن ٹنڈولکر آم کس کی محنت کا پھل؟
user

Dw

اسیّ برس سے زیادہ عمررسیدہ کلیم اللہ خان ہر صبح سویرے بیدار ہوتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، پھر اپنے 120 سال پرانے آم کے درخت کے دیدار کو تقریباً ایک میل کا فاصلہ طے کر کے پہنچتے ہیں۔ اس درخت سے انہوں نے کئی سال دیکھ بھال اور آبیاری کرتے ہوئے 300 سے زیادہ اقسام کے آم پیدا کیے ہیں۔ اس درخت کی طرف بڑھتے ہوئے جیسے جیسے کلیم اللہ قریب آتے جاتے ہیں ویسے ویسے ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک دکھائی دینے لگتی ہے۔ اپنا نظر کا چشمہ اوپر نیچے کرتے ہوئے، درخت کی شاخوں اور ٹہنیوں سے جھانکتے ہوئے، پتوں کو سہلاتے ہوئے پھلوں تک پہنچ کر انہیں سونگھتے ہیں اور اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ پک گئے ہیں یا نہیں۔

محنت کا پھل

82 سالہ بزرگ کلیم اللہ ملیح آباد کے چھوٹے سے قصبے کے ایک چھوٹے سے باغیچے میں کھڑے اپنے پھل دار درخت کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں،''یہ میرا انعام ہے کئی دہائیوں تک چلچلاتی دھوپ میں سخت محنت کا۔‘‘ کلیم اللہ مزید کہتے ہیں،''عام لوگوں کی نگاہ میں یہ محض ایک درخت ہے لیکن اگر آپ اپنے دماغ کی بصیرت استعمال کریں تو آپ کو ایک درخت، ایک باغ اور آموں کا سب سے بڑا کالج نظر آئے گا۔‘‘


اسکول کی تعلیم مکمل کیے بغیر اسکول سے نکل جانے والے کلیم اللہ اُس وقت ٹین ایجر تھے جب انہوں نے آموں کی نئی قسم کی پیداوار کے تجربات شروع کیے۔ انہوں نے ایک درخت سے سات قسم کے پھل اگانے کی کوشش کی۔ 'کراس پولینیشن‘ کے ذریعے۔ اس درخت کی پرورش کرتے رہے مگر یہ درخت ایک طوفان کی نذر ہو گیا۔

تاہم 1987 ء کے بعد سے اُن کی تمام تر خوشیاں اور فخر یہ 120 برس پرانا آم کا درخت ہے جو آم کی 300 سے زیادہ مختلف اقسام کا ذریعہ ہے، جن میں سے ہر ایک کا اپنا ذائقہ، ساخت اور رنگ اور سائز ہوتا ہے۔


آم کی اقسام

ابتدائی اقسام میں سے ایک جس کا نام انہوں نے بالی ووڈ اسٹار اور 1994ء کی مس ورلڈ بیوٹی مقابلہ جیتنے والی ایشوریا رائے بچن کے نام پر رکھا ہے۔ کلیم اللہ خان نے کہا،''آم اداکارہ کی طرح خوبصورت ہے۔ ایک آم کا وزن ایک کلوگرام (دو پاؤنڈ) سے زیادہ ہے، اس کی بیرونی جلد پر سرخی مائل رنگت ہے اور اس کا ذائقہ بہت میٹھا ہے۔‘‘

دیگر آموں کا نام انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی اورکرکٹ ہیرو سچن ٹنڈولکر کے اعزاز میں رکھا۔ ایک اور''انارکلی‘‘ ہے یا انار کا پھول، اور اس کی جلد کی دو تہیں اور دو مختلف گودے ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک کی مخصوص خوشبو ہوتی ہے۔


آٹھ بچوں کے والد کلیم اللہ خان نے کہا، ''لوگ آئیں گے اور جائیں گے، لیکن آم ہمیشہ رہے گا اور برسوں بعد جب بھی یہ سچن آم کھائے جائیں گے، لوگ کرکٹ کے ہیرو کو یاد رکھیں گے۔‘‘

درخت کی ساخت

نو میٹر یا تیس فٹ اونچے اس درخت کا مضبوط تنا جو بہت پھیلا ہوا ہے اور انتہائی خوش گوار سایہ فراہم کرتا ہے۔ پیڑ کی موٹی موٹی شاخیں جو بھارت میں موسم گرما کی کڑی دھوپ سے بچاؤ کے لیے سایے دار گھنے ٹہنیاں پھیلائے ہوئے ہیں۔ اس کے پتے مختلف ساخت کے ہیں اور ان پر جیسے 'پیچ ورک‘ کشیدہ کاری نظر آتی ہے۔ خان کہتے ہیں،''جیسے کسی دو انگلیوں کے نشان ایک جیسے نہیں ہوتے ویسے ہی آموں کی کوئی دو اقسام ایک سی نہیں ہوتیں۔ کچھ پیلے چمکیلے ہوتے ہیں تو کچھ کا رنگ مدھم سبز مائل ہوتا ہے۔ قدرت نے آموں کو انسانوں جیسی صفتوں سے نوازا ہے۔‘‘


آم کی پیداوار والا سب سے بڑا ملک

آم کے باغات، اس پھل سے محبت کرنے والوں کی کئی نسلوں سے چلی آ رہی خاندانی ملکیت ہیں۔ یہ باغات آم سے محبت کرنے والوں کی جنت ہیں، جس کی سب سے مشہور قسم ممکنہ طور پر منہ میں پگھلنے والی دُشیری ہے، جس کا نام قریبی گاؤں کے نام پر رکھا گیا ہے جہاں سے یہ 18ویں صدی میں شروع ہوا تھا۔

لیکن آل انڈیا مینگو گروورز ایسوسی ایشن کے مطابق، کسان موسمیاتی تبدیلیوں سے پریشان ہیں، اس سال گرمی کی لہر نے 90 فیصد مقامی فصل کو تباہ کر دیا ہے۔


انواع کی تعداد میں بھی کمی آئی ہے، جس کا ذمہ دار کلیم اللہ خان، کھیتی باڑی کی سخت تکنیکوں، سستی کھادوں اور کیڑے مار ادویات کے وسیع پیمانے پر استعمال کو ٹھہراتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کاشتکار بہت زیادہ درخت بھی لگاتے ہیں جو ایک ساتھ بہت مضبوطی سے باندھے جاتے ہیں، جس سے پتوں پر نمی اور اوس کے لیے کوئی جگہ نہیں رہتی، وہ کہتے ہیں۔''میں حال ہی میں اپنے پیارے درخت کے قریب رہنے کے لیے فارم کے اندر ایک نئے گھر میں منتقل ہوا،یہاں میں اپنی آخری سانس تک کام کرتا رہوں گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔