’فائنل راؤنڈ‘ سے پہلے زمان پارک میں کیا ہو رہا ہے؟
میں عمران خان سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ زمان پارک پہنچا تو عمران خان کے گھر کو میڈیا اور سیکورٹی والوں نے گھیر رکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ عمران خان کے چہرے پر شکست کے کوئی آثار نہیں تھے۔
میڈیا کے نمائندوں کو بغیر وقت لیے عمران خان کے گھر کی طرف جانے کی اجازت نہیں ہے۔ عمران خان کے گھر کے چاروں طرف مسلح سیکورٹی اہلکاروں کا پہرہ ہے۔ سڑک پر گاڑیاں روکنے والی روکاوٹیں لگائی گئی ہیں۔ علاقے کے بعض حصوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔ شام ہوتے ہی گھر کے آس پاس تیز روشنی والی سرچ لائیٹیں جلا دی جاتی ہیں۔ لانگ مارچ پر حملے کے بعد عمران خان کی سیکورٹی نمایاں طور پر سخت کر دی گئی ہے۔
کافی انتظار کے بعد صحافیوں کے ایک چھوٹے سے وفد کے ہمراہ ہم گھر کی عمارت میں داخل ہوئے یہاں بھی سیکورٹی مراحل موجود تھے۔ سلیقے سے سجے ایک بڑے ڈرائنگ روم سے ہوتے ہوئے جب ہم عمران خان کے کمرے میں پہنچے تو وہ ایک آرام دے کرسی پر بیٹھے تھے اور سامنے رکھے گئے اسٹول پر انہوں نے ٹانگ رکھی ہوئی تھی۔
عمران خان کالے رنگ کا بین والا کرتا اور ہلکے نیلے رنگ کا پاجامہ پہنا ہوا تھا، جس کو ایک طرف سے کاٹ کر پوری ٹانگ پر پٹیاں کی ہوئی تھیں۔ عمران خان سچ مچ زخمی تھے لیکن ان کے چہرے پر شکست کے کوئی آثار نہیں تھے۔ عمران خان غیر رسمی طور پر ایک صحافی کو بتا رہے تھے کہ اس واقعے کے بعد ان کے لیے ایکسرسائز کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ اس لیے انہیں بھوک بھی نہیں لگتی اور وہ معمول کے مطابق کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ عمران خان کا کمرہ قیمتی فرنیچر سے مزین تھا۔ دیواروں پرنظر آنے والی پینٹنگز میں آرٹ اور مذہب کے رنگ نمایاں تھے۔
ہم سب عمران خان کے ارد گرد بیٹھ گئے، بات شروع ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ خان صاحب لانگ مارچ ہو گیا، لوگ موبلائز ہو گئے اگر اب بھی آپ کا الیکشن والا مطالبہ نہیں مانا جاتا تو پھر آپ کے پاس پلان بی کیا ہے؟ عمران خان نے جواب دیا کہ اگر الیکشن فوری طور پر نا بھی ہوں یا اکتوبر میں ہو جائیں تو اس سے بھی پی ٹی آئی کی مقبولیت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ اس عرصے میں ملک کو بہت نقصان ہو گا اور عوام کی مشکلات بہت بڑھ جائیں گی۔ میں نے پوچھا کہ کیا واقعی آپ کو لگتا ہے کہ صرف عوامی مقبولیت کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت کیے بغیر آپ اقتدار میں آ جائیں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ اب پاکستان بہت بدل چکا ہے نوعمر بچے بھی پولیٹیسائز ہو چکے ہیں، ''ہم نے الیکشن کمیشن کی حمایت رکھنے والی درجن بھر جماعتوں کو اکیلے شکست دی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں نئی حقیقتیں جنم لے چکی ہیں، ہمیں اٹھا کر گیم سے باہر پھینک دینا اب ممکن نہیں رہا ہے۔‘‘
کسی نے پوچھا کہ جنرل باجوہ کے قریبی رشتہ داروں کے جو غیر معمولی اثاثے منظر عام پر آئے ہیں کیا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے؟ عمران خان کا موقف تھا کہ ایسے سارے مسائل کا حل قانون کی حکمرانی ہے، ''رول آف لا ہو گا تو سب کا احتساب ممکن ہو سکے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ نیب قوانین میں حالیہ ترامیم کے بعد اس وائیٹ کالر جرائم پر کاروائی نہیں ہو سکے گے۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کی نشاندہی کرنے والے کو ہی اس کا ثبوت دینا ہو گا اور اگر کوئی کرپشن کرکے پیسہ باہر منتقل کر دے تو پھر اس سے تو پوچھ گچھ ہی نہیں ہو گی۔ بار بار پوچھے جانے والے اس سوال کے جواب میں کہ کیا آپ آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے عدالت سے رجوع کریں گے؟ عمران خان نے اس کا واضح جواب نہیں دیا البتہ ان کا کہنا تھا کہ صدر علوی آرمی چیف کی سمری پر دستخط کرنے سے پہلے ان سے مشورہ کریں گے اور وہ اسے قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔
گھنٹے بھر کی ملاقات کے بعد ایک فوٹو سیشن ہوا۔ اس ملاقات کے بعد باہر نکلتے ہوئے ایک صحافی نے دوسرے کے کان میں کہا اس گھر میں چائے نہیں ملتی کیا۔ دوسرے نے اسے گھور کر دیکھا اور کہا شکر کرو اس سے ٹائم مل گیا اور ملاقات ہو گئی۔ کیا یہ کافی نہیں۔ اس پر ایک زوردار قہقہہ لگا اور ہم سب عمران خان کے گھر سے باہر نکل آئے۔
جب ہم عمران خان سے گھر سے نکل رہے تھے، اس وقت مولانا طارق جمیل کی گاڑی وہاں گھر میں داخل ہو رہی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔