الظواہری کی موت اور اس کے امریکہ اور طالبان کے تعلقات پر کیا اثر پڑیں گے
امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا کہ امریکہ نے افغانستان میں حملہ کرکے القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا ہے۔ ظواہری کو نائن الیون حملوں کے مشتبہ ماسٹر مائنڈز میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے پیر کی شب ایک خطاب میں کہا کہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو افغانستان میں ایک ڈرون حملے کے دوران ہلاک کردیا گیا۔ سن 2011 میں پاکستان میں امریکی کارروائی کے دوران القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد 73 سالہ ایمن الظواہری نے اس تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔
ایمن الظواہری کی ہلاکت اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کے لیے سب سے بڑا دھچکا ہے۔ صدر بائیڈن نے الظواہری کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا،"انصاف ہوگیا ہے۔ یہ دہشت گرد اب نہیں رہے۔ اب دنیا بھر کے لوگوں کو ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔"
اس آپریشن کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟
امریکی حکام نے پیر کے روز بتایا کہ امریکہ نے یہ کارروائی اواخر ہفتہ کو کیا تھا تاہم موت کی تصدیق ہونے تک اس کی اطلاع عام کو موخر رکھا گیا۔ بائیڈن نے تصدیق کی کہ انسداد دہشت گردی کی یہ کارروائی "کامیاب"رہی اور "کسی عام شہری کی جان نہیں گئی۔"
امریکی صدر نے بتایا کہ ایمن الظواہری اپنے کنبے کے افراد سے ملاقات کے لیے کابل پہنچے تھے۔ تاہم اس حملے میں "ان کے خاندان کا کوئی دیگر فرد زخمی نہیں ہوا۔" جو بائیڈن نے مزید کہا کہ انہوں نے گزشہ ہفتے ہی اس آپریشن کی منظوری دی تھی اور ہفتے کے روز یہ کارروائی انجام دی گئی۔
انہوں نے اپنے خطاب میں کہا،"میں نے امریکی عوام سے وعدہ کیا تھا کہ ہم افغانستان اور دیگر جگہوں پر انسداد دہشت گردی کے آپریشن جاری رکھیں گے، اور ہم نے ایسا کیا۔ ہم آج رات پھر یہ واضح کر دیتے ہیں کہ چاہے اس میں کتنا ہی وقت لگے، چاہے آپ کہیں بھی چھپیں۔ اگر آپ ہمارے لوگوں کے لیے خطرہ ہیں تو امریکہ آپ کو ڈھونڈ کر مار دے گا۔"
صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں بتایا کہ کس طرح القاعدہ کے سربراہ نہ صرف نائن الیون کی ہلاکتوں بلکہ یمن میں 2010 میں امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس کول پر حملے کے بھی ذمہ دار تھے جس میں 17 امریکی ہلاک ہوئے تھے، اور وہ کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانوں پر بم دھماکوں میں بھی ملوث تھے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس نے قبل ازیں ایک اعلیٰ امریکی انٹلیجنس افسر کے حوالے سے بتایا تھا کہ امریکی حملے کے دوران الظواہری جس مکان میں موجود تھے وہ طالبان کے ایک سینیئر رہنما سراج الدین حقانی کے ایک اعلیٰ مشیر کی ملکیت ہے۔
طالبان اور امریکہ کے تعلقات مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ
ایمن الظواہری کی ہلاکت کے بعد واشنگٹن کے ساتھ طالبان کے پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات مزید کشیدہ ہوجائیں گے۔ ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق طالبان کی اعلیٰ قیادت کو کابل میں الظواہری کی موجودگی کا علم تھا اور امریکہ نے طالبان حکومت کو اس کارروائی کی پیشگی وارننگ نہیں دی۔
عہدیدار نے کامیاب آپریشن کی تفصیلات دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ الظواہری پر حملے کی منصوبہ بندی 'کئی سال‘ سے جاری تھی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی انٹیلی جنس نے رواں سال کابل کے ایک مکان میں القاعدہ رہنما کے خاندان کے افراد کی شناخت کی جن میں ان کی اہلیہ، بیٹی اور بچے بھی شامل ہیں۔
عہدیدار نے مزید کہا کہ ہم نے متعدد مواقع پر بالکنی میں الظواہری کی شناخت کی، جہاں بالآخر انہیں مارا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ الظواہری کی کابل میں موجودگی سن 2020 میں امریکہ اور طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کی 'واضح خلاف ورزی‘ تھی۔
طالبان کا ردعمل
طالبان کی وزارت خارجہ نے ابتدا میں کابل میں کسی ڈرون حملے کی خبروں کی تردید کی۔ تاہم طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے منگل کی صبح کو ایک بیان جاری کرکے کہا کہ امریکی ڈرونز نے دارالحکومت کے شیر پور علاقے میں ایک رہائشی عمارت پر "فضائی حملے" کیے ہیں۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ افغان حکومت اس حملے کی شدید مذمت کرتی ہے۔"یہ حملہ بین الاقوامی اصولوں اور امریکی فوج کے افغانستان سے انخلاء کے حوالے سے سن 2020 کے دوحہ معاہدے کی بھی خلاف ورزی ہے۔"
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ"اس طرح کے اقدامات گزشتہ 20 برسوں کے دوران ناکام تجربات کا اعادہ ہے اور یہ امریکہ، افغانستان اور خطے کے مفادات کے خلاف ہیں۔" خیال رہے کہ گزشتہ برس 31اگست کو افغانستان سے انخلاء کے بعد سے یہ افغانستان میں القاعدہ پر پہلا امریکی حملہ ہے۔
ایمن الظواہری کون تھے؟
ایمن الظواہری مصری سرجن تھے۔ انہیں 11 ستمبر 2001 میں امریکہ کے ٹوئن ٹاورز پر حملوں کے منصوبہ سازوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس حملے میں تقریبا ً3000 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
القاعدہ کے سربراہ کی پیدائش 1951 میں قاہرہ کے ایک خوشحال اور معروف گھرانے میں ہوئی۔ کم عمری میں ہی انہوں نے ممنوعہ تنظیم اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کرلی۔
وہ سن 1981 میں مصر کے صدر انورسادات کے قتل کے الزام میں گرفتار کیے جانے والے سینکڑوں افراد میں شامل تھے۔ گوکہ انہیں اس الزام سے بری کردیا گیا تاہم انہیں ہتھیار رکھنے کے الزام میں تین برس جیل میں گزارنے پڑے۔ اپنی رہائی کے بعد وہ افغانستان چلے گئے، جہاں انہیں اسامہ بن لادن کے بارے میں پتہ چلا اور انہوں نے سوویت فوج کے خلاف جنگ میں حصہ لیا۔
الظواہری پیشے سے ڈاکٹر تھے۔ سن 1980کی دہائی کے اواخر میں جب اسامہ بن لادن نے غاروں میں پناہ لے رکھی تھی اس وقت الظواہری نے ان کے بیماری کا علاج کیا اور اس طرح وہ ان کے بہت قریب آگئے۔
سن 1998میں وہ اسامہ بن لادن کے دست راست بن گئے۔ سن 2011 میں امریکی فورسز کے ہاتھوں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد الظواہری نے القاعدہ کی کمان سنبھال لی۔ امریکہ نے ان کے سر پر ڈھائی کروڑ ڈالر کا انعام رکھا ہوا تھا۔ گزشتہ برسوں میں کئی مرتبہ ان کی ہلاکت کی افواہیں بھی اڑیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔