جو بائیڈن کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
سطحی طور پر شاید امریکی ڈیموکریٹک امیدوار اور ان کے مدمقابل میں شاید کوئی خاص فرق نظر نہ آئے۔ لیکن جو بائیڈن کی سیاسی اور ذاتی زندگی پر نظر دوڑائیں تو ان میں اور صدر ٹرمپ میں فرق صاف ظاہر ہے۔
جو بائیڈن اگر نئے صدر منتخب ہو گئے تو وہ اٹہتر سال کی عمر میں صدارتی حلف لینے والے امریکا کے معمر ترین صدر قرار پائیں گے۔ لیکن اگر صدر ٹرمپ دوبارہ جیت جاتے ہیں تو چوہتر برس کی عمر میں وہ بھی ملک کے سب سے زیادہ عمر والے صدر کا ریکارڈ قائم کر سکتے ہیں۔
اس الیکشن میں دونوں امیدواروں کی عمر پر کافی بحث ہوئی۔ اپنے شوبز کے تجربے اور رنگین مزاجی کے باعث ڈونلڈ ٹرمپ قدرے دلچسپ امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور ان کے جلسوں اور ریلیوں میں جوش و خروش نظر آیا۔
ان کی نسبت جو بائیڈن قدرے ضعیف رہنما کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ وہ امریکی سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں اور کوئی نصف صدی سے واشنگٹن کے ایوانوں میں متحرک رہے ہیں۔
نجی زندگی کے صدمے
ان کی پیدائش ریاست پینسلوینیا کی شہر سکرینٹن میں ہوئی۔ پچپن میں گھر والے ریاست ڈیلاویئر متقل ہوگئے۔ انہوں نے ۱۹۷۲میں وہاں سے امریکی سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتا۔ اور پھر بار بار جیتتے چلے گئے۔ انہوں نے ۱۹۸۸ اور پھر ۲۰۰۸ امریکی صدارت کے لیے کوششیں کیں لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔
جو بائیڈن نے اپنی ذاتی زندگی میں بارہا صدمے دیکھے ہیں۔ سن ۱۹۷۲ میں سینٹ کا اپنا پہلا الیکشن جیتتنے کے فوری بعد ان کی اہلیہ اور چھوٹی بچی ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ اس ایکسیڈینٹ میں ان کے دو لڑکے زخمی ضرور ہوئے لیکن بچ گئے۔ جو بائیڈن کو اس وقت اپنی رکنیت کا حلف ہسپتال سے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے دوران لینا پڑا تھا۔
پھر سن ۲۰۱۵ میں ان کے ایک ۴۶ سالہ صاحبزادے بیو بائیڈن کا دماغی کینسر کے باعث انتقال ہوگیا۔ جو بائیڈن کے لیے یہ ایک بڑا دھچکا تھا کیونکہ ان کے صاحبزادے مقامی سیاست کے ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر دیکھے جا رہے تھے اور سن ۲۰۱۶ میں ریاستی گورنر کے عہدے کے الیکشن کی تیاری کررہے تھے۔
ڈیموکریٹ ووٹرز کی نظر میں جو بائیڈن جس انداز میں نجی زندگی میں ان سانحات سے نمٹے، اس سے ان کی ہمت اور حوصلے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران جو بائیڈن نے بارہا اپنے ان تجربات کا ذکر کیا اور امریکا کے نظام صحت میں اصلاحات پر زور دیا۔
ملنسار شخصیت
صدر ٹرمپ کی نسبت جو بائیڈن کو ایک نسبتا ملنسار اور عوامی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ وہ عوام میں اپنے جوش خطابت کے لیے اتنے مشہور نہیں جتنا اپنی خوش اخلاقی اور لوگوں میں گھل مل جانے کے لیے۔
لیکن اس سال انہیں ان کی یہ خوبی اس وقت کچھ بھاری پڑگئی جب انتخابی مہم کے دوران کچھ خواتین کی طرف سے ان پر غیراخلاقی حرکتوں کے الزامات لگائے گئے۔ جو بائیڈن نے ان سے انکار کیا اور کہا کہ خواتین کے ساتھ ان کے بےتکلفانہ رویے کو غلط رنگ دے کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
خارجہ امور کے ماہر
صدر ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن عالمی سفارتکاری کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ وہ تین بار سینٹ کی طاقتور امور خارجہ سے متعلق کمیٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ سن ۲۰۰۸ میں جب وہ صدر باراک اوباما کے نائب صدر کے امیدوار قرار پائے تو اس میں ان کے اس تجربے کا بڑا عمل دخل تھا۔
صدر اوباما کی طرح جو بائیڈن عالمی سطح پر امریکا کے اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ وہ گمبھیر تنازعات کے حل کے لیے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارتکاری کو ترجیح دیتے ہیں۔ صدر منتخب ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ وہ ایران کے ساتھ اوباما دور کا ایٹمی معاہدہ بحال کرنے کی کوشش کریں۔ ریپبلکن پارٹی اور صدر ٹرمپ کی نظر میں ان کی یہ کمزور لیڈر کی نشانی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Nov 2020, 6:11 AM