کيا اب ڈاکٹر کے پاس جانا گزرے زمانے کی بات ہو گئی؟
کورونا وائرس کی وبا کے دور ميں ٹيلی فون يا پھر ويڈيو کی مدد سے ڈاکٹر سے مشورے کا رجحان تيزی سے بڑھ رہا ہے۔ یہ عمل کارآمد ہے اور ان دنوں لوگوں کے ليے تحفظ کا ذريعہ بھی ہے تاہم اس سے مسائل بھی جڑے ہيں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا کے منفی اثرات کے ساتھ ساتھ کچھ مثبت تبديلياں بھی نمودار ہوئی ہيں۔ بالخصوص طب کے ميدان ميں وبائی صورت حال نے کچھ ہی عرصے ميں ايسا انقلاب برپا کر ديا ہے جسے شايد سالوں لگ سکتے تھے۔ کلينکس ميں وائرس کے خوف کے پيش نظر بہت سے مريض اب ڈاکٹروں سے آن لائن ملاقاتيں کر رہے ہيں۔ معالج نے باقاعدہ طور پر آن لائن سروسز شروع کر رکھی ہيں، کبھی ٹيلی فون پر تو کبھی ويڈيو کی مدد سے مريض اپنی علامات بتا ديتے ہيں اور ڈاکٹر اس کا علاج بتا ديتے ہيں۔ برطانوی رائل کالج آف جنرل پريکٹيشنرز کے سربراہ پروفيسر مارٹن مارشل کے بقول موجودہ وبا کے دور ميں ڈاکٹر اور مريضوں کے مابين تبادلے ميں از سر نو تبديلياں ديکھی گئی ہيں۔
برطانيہ سميت يورپ، امريکا اور دنيا کے ديگر حصوں ميں جيسے جيسے کورونا وائرس کی وبا پھيلتی گئی، ماہرين نے دور رہتے ہوئے ڈيٹا پروٹيکشن اور اعتماد سازی کے قوائد و ضوابط از سر نو ترتيب ديے۔ امريکا ميں ٹيلی ميڈيسن پر عائد پابنديوں ميں نرمی کی گئی اور پرائيويسی سے متعلق قوائد بھی نرم کيے گئے تاکہ لوگ اسکائپ اور فيس ٹائم جيسے پليٹ فارمز بروئے کار لا سکيں۔
امريکی پاليسی ساز اور وائٹ ہاؤس کے سابق مشير کرس جيننگز کا کہنا ہے کہ لوگ اب اس ماڈل کو ديکھ رہے ہيں، جسے فعال ہونے ميں شايد مزيد کئی سال لگ سکتے تھے۔ ان کے مطابق وبا کے باعث ٹيلی ميڈيسن ميں ايک دہائی کی ترقی چند ہی ہفتوں ميں ديکھی گئی۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت اٹھاون فيصد ممالک ميں ٹيلی ميڈيسن کا نظام زير استعمال ہے جب کہ کم آمدنی والے ملکوں ميں يہ شرح ذرا کم یعنی بياليس فيصد ہے۔ برطانوی ہيلتھ کيئر سروسز کی نگران اين ايچ ايس کنفيڈريشن کی ڈائريکٹر ليلی مک کے بتاتی ہيں کہ يوميہ بنيادوں پر برطانيہ ميں 1.2 ملين افراد مختلف طبی مسائل کے ليے ڈاکٹروں سے رجوع کرتے ہيں اور ان دنوں يہ تبادلے زيادہ تر ٹيلی فون يا ويڈيو کی مدد سے ہو رہے ہيں۔
تاہم اس ضمن ميں رکاوٹيں اور مسائل بھی ہيں۔ امپيريل کالج لندن سے منسلک ايک ڈاکٹر کميلے گارجيا کا کہنا ہے کہ ويڈيو کی مدد سے مريض کا حال جاننے کی ان کی پہلی کوشش ناکام تھی،''کبھی مزدوں کے کام کاج کی آوازيں تنگ کرتی تھيں تو کبھی مائیکروفون کام کرنا بند کر ديتا تو کبھی کوئی اور ڈاکٹر ساتھ آن کھڑا ہوتا۔‘‘ ايسے خدشات بھی پائے جاتے ہيں کہ نازک صورت حال سے دوچار مريض شايد اپنے گھر سے کھل کر بات نہيں کر پائيں گے۔ بزرگ افراد کے ليے ٹيکنالوجی سمجھنا بھی ذرا مشکل ثابت ہوتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔