یورپ سے افغانستان کی 'ورچوئل سیر‘ کرانے والی افغان مہاجر لڑکی
فاطمہ حیدری زوم کے ذریعے یورپی سیاحوں کو اپنے دیس افغانستان کی سیر کراتی ہیں اور ان ورچوئل ٹورز کی آمدنی سے افغانستان میں خواتین کے لیے انگریزی کی خفیہ کلاسز فنڈ کرتی ہیں۔
اٹلی میں مقیم فاطمہ حیدری کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ ان کے افغانستان میں ایک ٹریول ایجنسی کھولنے کے خواب کی تکمیل کے امکانات بہت کم ہیں، کم از کم جب تک وہاں طالبان کی حکومت ہے۔ لہذا وہ اب زوم کے ذریعے لوگوں کو اپنے دیس کی سیر کراتی ہیں اور ان ورچوئل ٹورز کی آمدنی سے افغانستان میں خواتین کے لیے انگریزی کی خفیہ کلاسز کے لیے مالی معاونت کرتی ہیں۔
سن 2021ء میں فاطمہ کو طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد مجبوراﹰ افغانستان چھوڑنا پڑا تھا۔ اس سے پہلے وہ افغانستان کے شہر ہرات میں بطور ٹور گائیڈ کام کرتی تھیں۔ آج وہ اٹلی کے شہر میلان کی بوکونی یونیورسٹی میں بین الاقوامی سیاست کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ باقی دینا کو افغانستان کی خوبصورتی سے متعارف کرانے کا عزم بھی رکھتی ہیں اور 2021ء کے بعد سے بدلتی صورتحال کے تناظر میں افغانستان میں سیاحوں کی آمد میں کمی بھی ان کا یہ جذبہ ماند نہیں کر پائی ہے۔
ان کا کہنا ہے، "جب آپ افغانستان کے بارے میں سوچتے ہیں تو آپ کے ذہن میں جنگ، دہشت اور بموں کا خیال آتا ہے لیکن میں دنیا کو اس کی خوبصورتی، ثفاقت اور تاریخ دکھانا چاہتی ہوں۔" میلان میں فاطمہ چار اور طالب علموں کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہتی ہیں، جہاں سے وہ 'سائبر ٹورسٹس' کو زوم کے ذریعے ہرات کی سیر کراتی ہیں۔ ان ٹورز کے دوران سیاحوں کو ہرات کی جامع مسجد، تاریخی قلعے اور پر رونق بازار کا نظارہ کرنے کو ملتا ہے۔ یہ ٹورز برطانوی ٹور آپریٹر انٹیمڈ بارڈرز کے ذریعے منعقد کیے جاتے ہیں، جن میں برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی اور بھارت سے لوگ افغانستان کی سیر کا شوق پورا کرتے ہیں۔
فاطمہ کا بوکونی یونیورسٹی تک کا سفر
طالبان نے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، جن میں ان کے اسکولوں اور جامعات میں تعلیم حاصل کرنے پر بندش بھی شامل ہے۔ افغانستان میں فاطمہ کو بھی پابندیوں اور مشکل حالات کا سامنا رہا تھا۔ پہلی افغان خاتون ٹور گائیڈ بننے کے بعد ان کو توہین آمیز رویے کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور مقامی مذہبی رہنماؤں نے ان پر "شیطانی کام" کرنے تک کے الزامات لگائے تھے۔ ایسا خصوصاﹰ تب ہوتا تھا، جب ان کے ساتھ مرد سیاح ہوتے۔ فاطمہ کے بقول ایسے موقعوں پر گلیوں میں لڑکے ان پر پتھر بھی پھینکتے۔
افغان خواتین کی انہی مشکالات کا احساس کرتے ہوئے آج فاطمہ ورچوئل ٹورز کے ذریعے کمائی گئی اپنی آمدنی کا ایک تہائی حصہ افغانستان میں خواتین کے لیے انگریزی کی خفیہ کلاسز کی مالی معاونت کرنے پر صرف کرتی ہیں۔ انہیں خود بھی تعلیم کے حصول اور کتابوں تک رسائی کے لیے جدوجہد کا سامنا رہا تھا۔ ان کا بچپن افغانستان کے پہاڑی علاقے غور میں گزرا۔ وہ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں اور کم عمری میں ان کے والدین نے بھیڑوں کی دیکھ بھال کا ذمہ انہیں سونپ دیا تھا۔
اس دور کو یاد کرتے ہوئے فاطمہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ بھیڑوں کو دریا کے کنارے چرانے لے جاتی تھیں، جہاں لڑکوں کا ایک اسکول بھی تھا۔ اس اسکول میں طلبہ جب سبق پڑھ رہے ہوتے تو فاطمہ چھپ کہ سنتی رہتیں اور چونکہ انہیں قلم میسر نہیں تھا تو وہ اس سبق کو انگلی سے مٹی یا ریت پر لکھ لیتی تھیں۔ جب وہ دس سال کی تھیں تو ان کا خاندان ہرات منتقل ہوا لیکن غربت کی وجہ سے وہاں بھی ان کا اسکول میں داخلہ نہیں ہو پایا۔ فاطمہ بتاتی ہیں انہوں نے تین سال راتوں کو جاگ کر گھر پر روایتی ملبوسات تیار کیے تا کہ وہ اسکول کی فیس اور کتابیں خریدنے کے لیے پیسے جمع کر سکیں۔
بالآخر وہ فاطمہ والدین کو اس بات پر منانے میں کامیاب ہو گئیں کہ وہ انہیں ہرات میں یونیورسٹی جانے دیں، جہاں انہوں نے 2019ء میں صحافت کے شعبے میں تعلیم کا آغاز کیا۔ وہ کہتی ہیں ان کے والدین کی خواہش تھی کہ وہ ایک "پرفیکٹ خاتون خانہ" بنیں لیکن وہ اپنی دونوں بہنوں کی طرح ارینجڈ میرج نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ اس لیے وہ تعلیم کے حصول کے لیے سر گرم رہیں اور گزشتہ برس ستمبر میں وہ ان 20 افغان پناہ گزین طالب علموں میں شامل تھیں جنہیں میلان کی بوکونی یونیورسٹی میں داخلہ دیا گیا۔
آج جب فاطمہ کالا اسکارف، چمڑے کی بنی ہوئی بغیر آستینوں کی جیکٹ، جینز اور بوٹس پہن کر یونیورسٹی جاتی ہیں تو باقی طالب علموں اور ان میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ وہ انہیں میں سے ایک لگتی ہیں، لیکن ایسے میں انہوں نے افغانستان میں خواتین کی حالت زار کو فراموش نہیں کیا ہے۔ وہاں کے خواتین کے حالات بیان کرتے ہوئے فاطمہ کا کہنا تھا، "وہ گھروں میں قید ہیں، بالکل اس طرح جیسے انہیں جیل میں بند یا قبر میں زندہ دفن کر دیا گیا ہو۔" اور یوں فاطمہ کو افغانستان واپسی کا اپنا خواب پورا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا۔
ادھورے خواب
فاطمہ افغانستان میں جس مقامی ٹور آپریٹر کے لیے کام کرتی تھیں، اس نے طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد فاطمہ کو خبردار کیا تھا کہ انہیں ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے، جس کے بعد ہی انہوں نے ملک چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا۔
افغانستان چھوڑتے وقت وہ کابل ہوائی اڈے کی منظر کشی کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ انہوں نے ہزاروں بے بس افراد کو بیتابی سے جہاز میں چڑھنے کی کوششیں کرتے دیکھا اور اس دوران "طالبان لوگوں کو کلاشنکوف کے دستوں سے مار رہے تھے، گولیاں میرے کان کے پاس سے گزر رہی تھیں اور ایک بچی میرے برابر میں گر کر مر گئی تھی۔ مجھے لگا کہ میں کسی ہارر فلم کا حصہ ہوں لیکن وہ سب اصل میں ہو رہا تھا۔"
انہیں اندوہناک مناظر کو دیکھنے اور امریکہ اور پولینڈ جانے والے جہازوں میں چڑھنے کی ناکام کوششوں کے بعد فاطمہ بالآخر روم جانے والے ایک جہاز پر سوار میں کامیاب ہو گئیں تھی۔ وہ آج بھی افغانستان واپس جا کہ وہاں اپنی ٹریول ایجنسی کھولنے کا خواب دیکھتی ہیں۔ وہ افغانستان میں ایسی ٹریول ایجنسی چلانا چاہتی ہیں جس میں وہ خواتین کو بطور گائیڈ ملازمت فراہم کریں لیکن وہ کہتی ہیں، "جب تک افغانستان میں طالبان ہیں وہ میرا مسکن نہیں ہو سکتا۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔