بھارت میں ڈاکٹر تشدد کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟

بھارت میں ڈاکٹرو ں پر تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لہذا وہ تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ متعدد افراد کا کہنا ہے کہ ملک میں صحت کی دیکھ بھال کا خراب نظام اس مسئلے کی جڑ ہے۔

بھارت میں ڈاکٹر تشدد کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟
بھارت میں ڈاکٹر تشدد کا شکار کیوں ہو رہے ہیں؟
user

Dw

بھارت کی جنوبی ریاست کیرالہ میں ایک نوجوان ڈاکٹر وندنا داس کو گزشتہ ماہ ایک مریض نے چاقو مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ مبینہ طور پر نشے میں دھت اس مریض کو پولیس طبی معائنے کے لیے اسپتال لائی تھی۔ چند ماہ قبل لوگوں کے ایک گروپ نے ایک نجی اسپتال میں ایک مریض کے علاج کے معاملے پر ایک سینیئر کارڈیالوجسٹ کے ساتھ ہاتھا پائی کی تھی۔ حالانکہ مذکورہ ڈاکٹر کا اس مریض کے علاج سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن (آئی ایم اے) کیرالہ کے صدر سلفی نوہو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "کیرالہ میں ہر ماہ ڈاکٹروں پر حملے کے کم از کم پانچ واقعات کی رپورٹیں درج کی جاتی ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں ڈاکٹروں پر حملے اور انہیں ڈرانے دھمکانے کے 200 سے زیادہ ایسے واقعات درج کیے گئے۔ آئی ایم اے ڈاکٹروں کے خلاف تشدد کے واقعات پر روک لگانے کے لیے ایک جامع قانون سازی کا مطالبہ کر رہی ہے۔


سن 2019 میں مغربی بنگال میں ایک جونیئر ڈاکٹر پر ایک ہجوم نے حملہ کردیا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں نے بڑے پیمانے پر استعفی دے دیے تھے۔ یہ حملہ ایک مریض کی موت کے بعد ہوا تھا جب مریض کے لواحقین نے ہسپتال پر طبی غفلت کا الزام لگایا۔ آئی ایم اے کے ایک سروے کے مطابق 75 فیصد سے زیادہ ڈاکٹروں کو اپنے کام کے مقامات پر کسی نہ کسی طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بیشتر واقعات میں مریض کے رشتہ دار اس میں ملوث پائے گئے تھے۔

سرکاری اسپتالوں انٹرنز اور طلبہ خطرے کی زد میں

بھارت میں ایسے کوئی مرکزی اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں، جس سے معلوم ہوسکے کہ کتنے ڈاکٹر اپنے کام کے مقامات پر تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ تاہم ایسا لگتا ہے کہ سرکاری اسپتالوں میں طبی عملہ بالخصوص جونیئر ڈاکٹروں، میڈکل انٹرنز اور آخری سال کے میڈیکل طلبہ کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ڈاکٹروں کی کئی تنظیمیں اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مرکزی قانون سازی کا مطالبہ کر رہی ہیں۔


کورونا وبا کے دور میں اپریل 2020 میں بھارت میں ایک قانون متعارف کرایا گیا جس میں صحت کی دیکھ بھال سے وابستہ اہلکاروں کے خلاف تشدد کو قابل سماعت اور ناقابل ضمانت جرم تسلیم کیا گیا۔ ایک ڈاکٹر منیش گپتا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"تاہم وبا کے خاتمے کے ساتھ ہی وہ قانون بھی ختم ہوگیا۔" انہوں نے مزید کہا، "ہم ڈاکٹروں کے تحفظ کے لیے ایک ٹھوس قانون چاہتے ہیں۔ موجودہ ریاستی قوانین اپنے نفاذ کے لحاظ سے کمزور ہیں اور اس میں صحت سے وابستہ اہلکاروں کی حفاظت کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔"

آبادی کے تناسب سے ڈاکٹروں کی تعداد بہت کم

ڈاکٹروں کے خلاف تشدد کے انفرادی واقعات سے الگ ہٹ کر ماہرین کا کہنا ہے کہ تشدد کے ان واقعات کو بھارت کے ناقص عوامی صحت کے نظام کے تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن میں محدود وسائل اور عملے کی کمی کے سبب غیر مناسب انتظام صحت، علاج پرآنے والے بہت زیادہ اخراجات، نجی ہسپتالوں میں مریضوں کے طویل قیام جیسے حالات ممکنہ طور پر تشدد کا سبب بنتے ہیں۔


حکومتی اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں 3.4 ملین رجسٹرڈ نرسیں اور 1.3ملین الائیڈ اور ہیلتھ کیئر پروفیشنلز بشمول ڈاکٹرز ہیں۔ یہ بھارت جیسے ملک کے لیے بہت کم ہے جو حال ہی میں چین کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن گیا ہے۔ انڈین جرنل آف پبلک ہیلتھ کے مطابق بھارت کو 2030 تک کم از کم 20 لاکھ ڈاکٹر وں کی ضرورت ہوگی۔

پرائیوٹ اسپتالوں میں علاج کرانے کی مجبوری

سرکاری اور نجی اسپتالوں کے درمیان عدم توازن کی وجہ سے مریضوں کو علاج کے لیے اپنی جیبیں خالی کرنی پڑ رہی ہیں۔ ہولی فیملی اہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور کریٹیکل کیئر اسپیشلسٹ سمیت رے نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "تشدد کے واقعات میں متعدد عوامل کارفرما ہیں۔ سب سے اہم یہ ہے کہ لوگوں کا صحت کی دیکھ بھال کے نظام پر سے مجموعی طور پر اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔"


انہوں نے مزید کہا کہ،" منافع کمانے کے مقصد سے قائم کیے گئے نجی اسپتالوں میں علاج اور صحت کی دیکھ بھال کے نام پر لوگوں کی جیبیں خالی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔" بھارت اپنی جی ڈی پی کا صرف ایک عشاریہ دو (1.2) فیصد ہی صحت عامہ پر خرچ کرتا ہے اور صحت عامہ پر اخرات کی عالمی درجہ بندی میں یہ 195ملکوں کی فہرست میں 152ویں نمبر پر ہے۔

صحت اور علاج معالجے پر حدسے زیادہ آنے والے اخراجات نے بہت سے لوگوں کو مقروض بنادیا ہے۔ لاکھوں بھارتی شہری ہر سال خط افلاس سے نیچے آجاتے ہیں اور علاج کے لیے اثاثے فروخت کرنے اور قرض لینے پر مجبور ہیں۔ ڈاکٹر رے کے مطابق، "اپنے عزہ و اقارب کا علاج کرانے کے لوگ قرض بھی لینے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں لیکن جب نتیجہ ان کے توقعات کے مطابق نہیں ہوتا تو اس کا انجام تشدد کی شکل میں سامنے آتا ہے۔"


ڈاکٹروں کو 'مواصلاتی مہارت' کی ضرورت

جب بالخصوص غریب کنبے اپنے کسی عزیز کا نجی اسپتالوں میں علاج کراتے ہیں تو انہیں اپنے زمین یا اثاثے فروخت کرنے پڑتے ہیں جو ان کے لیے ایک طرح سے 'تجارتی سودا'ہوتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے رقم کا بہتر نتیجہ کی بھی توقع کرتے ہیں۔

ڈاکٹر رے کا کہنا تھا، "ہمارے میڈیکل ایجوکیشن میں اچھی مواصلاتی مہارت کی تربیت کی کمی بھی ایک وجہ ہے۔ اس کی وجہ سے ڈاکٹروں اور بالخصوص اگلے محاذ پر کام کرنے والے نوجوان ڈاکٹروں کے اندر تناو اور پیچیدہ حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ ایسے میں مقامی لوگوں کی خطرناک مداخلت حالات کو مزید خراب کردیتے ہیں۔ مقامی سیاست داں اور شرپسند عناصر بھی اپنی اہمیت ثابت کرنے کے لیے درمیان میں کود پڑتے ہیں۔" زبانی تکرار اس وقت مزید خطرناک صورت اختیار کرلیتی ہے جب مریض اور اس کے رشتہ داروں کو اپنی مالی حالت تباہ ہوجانے کا خوف لاحق ہوجاتا ہے۔


ڈاکٹر وکاس واجپئی کا تاہم خیال ہے کہ ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے قانون کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ واجپئی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،" آپ کو ایک ایسے نظام صحت کی ضرورت ہے جو عوام کے وقار کا خیال رکھتے ہوئے ان کی صحت کی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ جونیئر ڈاکٹر عوامی غصے کا سب سے زیادہ شکار اس لیے بنتے ہیں کیونکہ وہی سب سے آگے ہوتے ہیں اور میڈیکل ایمرجنسی کے دوران بیشتر حالات میں مریض کو ابتدا ئی علاج وہی فراہم کرتے ہیں۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔