امریکہ، ’لنچنگ‘ کو نفرت انگیز جرم قرار دینے کے قانون کی منظوری

امریکی سینیٹ نے حال ہی میں لنچنگ کو نفرت آمیز جرم قرار دینے کے قانون پر ہونے والی ووٹنگ میں متفقہ طور پر اس کی منظوری دے دی۔ اب یہ بل صدر جو بائیڈن کے دستخط کے ساتھ قانونی شکل اختیار کر لے گا۔

فائل تصویر آئی  اے اہن ایس
فائل تصویر آئی اے اہن ایس
user

Dw

اس قانون کے تحت کسی بھی انسان کو نفرت انگیزی کا شکار بنا کر جسمانی اذیت دینے، مار پیٹ کرنے اور زدو کوب کرتے ہوئے اس کی جان لینے کا عمل نفرت پر مبنی ایک جرم قرار دیا جائے گا اور اس کی سزا 30 سال تک کی قید ہو سکتی ہے۔

امریکہ میں اس نوعیت کی قانون سازی کی کوششوں کی تاریخ قریب ایک صدی سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ اب جا کر اس بل کو وفاقی سطح پر قانون کی شکل دینا اس امر کی علامت ہے کہ امریکہ میں گزشتہ چند سالوں کے دوران رونما ہونے والے ایسے واقعات جن میں خاص طور سے نسل پرستی اور سیاہ فام امریکی باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور انہیں اذیت رسانی کا شکار بناکر ان کی جان لے لینے جیسے واقعات کے خلاف عوامی سطح پر پُرزور احتجاج سامنے آتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ لنچنگ کو نفرت انگیز جرم قرار دینے کے قانون کی منظوری سینیٹ نے دے دی اور اس سے بھی بڑھ کر اہم بات یہ کہ اس بل کا نام ایک افریقی نژاد امریکی نوجوان ''ایمٹ ٹلِ‘‘ کے نام پر رکھا گیا۔ اس شخص کو 1950 ء کی دہائی میں وحشیانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد امریکہ کی شہری حقوق کی تحریک نے غیر معمولی شدت اور تیزی اختیار کی۔


''ایمٹ ٹلِ اینٹی لنچنگ لاء‘‘

امریکی سینیٹ کے اکثریتی ڈیموکریٹس کے رہنما سینیٹر چک شومر نے اس تاریخی قانون کے بارے میں کہا، '' دو سو سال سے زائد کے عرصے سے لنچنگ کو غیر قانونی قرار دینے کی ناکام کوششوں اور طریل التوا کے بعد اس بل کو پاس کرنا ممکن ہوا۔‘‘ انہوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا، '' یہ ایک اہم قدم ہے تاہم اسے اُٹھانے میں جتنا طویل وقت لگا یہ امریکہ پر لگنے والا ایک سیاہ داغ ہے۔‘‘

یاد رہے کہ امریکی شہر شیکاگو سے تعلق رکھنے والے 14 سالہ ایمٹ ٹلِ کو اگست 1955 ء میں جنوبی ریاست میسیسپی میں اُس کے رشتے داروں سے ملنے کے دوران اغوا کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ اس کی مسخ شدہ لاش تین روز بعد ایک مقامی ندی سے برآمد ہوئی تھی۔


ایمٹ ٹلِ کا قصور کیا تھا؟

ٹِل پر ایک سفید فام خاتون کیرولن بریانٹ نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ اُس 14 سالہ نے ایک اسٹور میں پہلے اُسے ہمبستری کی دعوت دی پھر اُس کی کمر، بازوؤں اور ہاتھوں کو چھُوا تھا۔ ٹل کے قتل کے بعد مسیسیپی کے دو سفید فام مرد، کیرولین کے شوہر روئے برلیانٹ اور اُس کے سوتیلے بھائی جے ڈبلیو میلام کو اس کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم تمام سفید فامز اراکین پر مشتمل ایک جیوری نے ان سب کو بری کروا دیا تھا۔ اس جوڑے نے تاہم بعد ازاں ایک میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے اعتراف کر لیا تھا کہ اُس نے ٹل کو قتل کیا تھا۔ کیرولین کے شوہر روئے برلیانٹ کا 1994ء میں اور میلام کا انتقال 1981ء میں ہو گیا تھا۔ کیرولین اب کیرولین ڈونہام ہو چُکی ہے۔ اس کیس کے بارے میں ایک کتاب لکھنے والے مصنف کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کیرولین نے اپنی گواہی کے کچھ حصوں کو مسترد کر دیا۔ تاہم امریکی محکمہ انصاف نے کہا کہ ڈونہام نے ایف بی آئی کے سامنے اس بات سے انکار کیا کہ اس نے کبھی اپنی گواہی کو مسترد کیا ہے۔ ساتھ ہی اس سے زیادہ مزید کوئی اطلاعات فراہم نہیں کیں جو کہ پچھلی وفاقی تحقیقات کے دوران سامنے آئی تھیں۔

دسمبر میں محکمہ انصاف نے قتل کی یہ تحقیقات ختم کر دی تھیں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا، ''حکومت کو اب دوبارہ تحقیقات میں کوئی ایسا نیا ثبوت نہیں ملا کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ ٹل کے اغوا اور قتل میں کوئی خاتون یا کوئی دوسرا انسان ملوث تھا۔‘‘


ڈیموکریٹک سینیٹر کوری بکر، جنہوں نے 2018 ء میں لنچنگ کو وفاقی جرم بنانے کے لیے قانون سازی کی تھی، نے پیر کو کہا کہ لنچنگ '' دہشت گردی کا ایک شرمناک آلہ ہے جسے سیاہ فام امریکیوں کو ڈرانے اور ان پر ظلم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''یہ قانون سازی ایک ضروری قدم ہے جو امریکہ کو نسلی تشدد سے نجات کے لیے اٹھانا چاہیے، وہ تشدد جو اس کی تاریخ میں بھرا پڑا ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔